گڑیوں کا حکم
سوال: کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں، تاش، ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے، نیز ہندوؤں کی ضرورت کی گڑیاں بھی کیا بیچی جاسکتی ہیں؟
سوال: کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں، تاش، ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے، نیز ہندوؤں کی ضرورت کی گڑیاں بھی کیا بیچی جاسکتی ہیں؟
سوال: اشتہار کے لیے کیلنڈر پر آج کل عورتوں کی تصاویر بنانے کا بہت رواج ہے۔ نیز مشہور شخصیتوں اور قومی رہبروں کی تصاویر بھی استعمال کی جاتی ہیں، علاوہ بریں تجارتی اشیا کے ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر چھاپی جاتی ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں ایک مسلمان تاجر اپنا دامن کیسے بچا سکتا ہے؟
سوال:ہر گاؤں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے زمیندار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے، نہ تنخواہ دیتے ہیں، بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلہ کی انہیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو ’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمیندار لوگ جب کبھی لوہے یا لکڑی کا کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے لوہاریا بڑھئی بعض کارخانوں اور دکانوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور وہاں سے سامان خریدواتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ یہ لوگ دکان پر جاتے ہی آنکھوں کے اشاروں سے دلالی کی فیس دکاندار سے طے کر لیتے ہیں جس سے زمیندار بے خبر رہتا ہے۔ اگر دکاندار، لوہار یا بڑھئی کی دلالی کا کمیشن ادا نہ کرے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے زمیندار کو اس کی دکان پر نہ لائے گا بلکہ کسی دوسری جگہ ساز باز کرے گا۔اور جو دکاندار کا کمیشن دینے پر راضی ہو وہ خراب مال بھی اگر دکھائے تو یہ خاص قسم کے دلال اس کی تعریف کریں گے اور اسے بکوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سازش اگر زمیندار پر آشکار ہوجائے تو وہ اپنے بڑھئی یا لوہار کو ایک دن بھی گاؤں میں نہ رہنے دے۔ یہ صورت معاملہ کیسی ہے؟
سوال: چمڑے کے کاروبار میں کروم ایک ایسی چیز ہے جس پر فٹ کی پیمائش کا اندراج بہت غلط ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مال کلکتہ میں تیار ہوتا ہے۔ مال تیار کرنے والے ہر تھان پر اصل پیمائش سے زائد فٹ لکھ دیتے ہیں۔ مثلاً دس فٹ کے تھان کو بارہ فٹ ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے بعد کلکتہ کے تاجر یہ مال خریدتے ہیں اور یہ کچھ اور فٹ بڑھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد جب باہر کے تاجر ان سے مال خرید کر لے جاتے ہیں تو پھر وہ مزید فٹ بڑھاتے ہیں۔ یہاں آکر تھان پر فٹوں کا پکا اندراج ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ آخر تک یہی اندارج قائم رہتا ہے۔ صحیح فٹ والا مال مارکیٹ میں نہیں ملتا۔ تقریباً سبھی کارخانے اور تاجر یہی کچا فٹ استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر گاہک اس صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ہم پیمائش کی اس گڑ بڑ کے متعلق کوئی توضیح نہیں کرتے۔لیکن اگر کوئی گاہک پوچھے تو اسے صاف بتادیتے ہیں کہ اس مال پر کچے (یعنی غلط) فٹوں کا نمبر لگا ہوا ہے۔ ہم اسی کچے فٹ کے حساب سے خریدتے ہیں اور اسی کے حساب سے منافع لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ مثلاً ایک کچا فٹ اگر ۱۲ آنے میں آتا ہے تو ہم ایک کچے فٹ کے ساڑھے ۱۲ لگائیں گے۔ شرعاً ایسے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟
سوال: ’’میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔سال گزشتہ صوبہ کی ہندو سبھا کا پروپیگنڈہ سیکریٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول و سوئم، اسلام کا نظریہ سیاسی، اسلامی حکومت کسی طرح قائم ہوتی ہے، سلامتی کا راستہ وغیرہ دیکھی ہیں،جن کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بدل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔ جس حکومت الہٰیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند امور دریافت طلب ہیں۔ خط و کتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سوال:آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوؤں میں اچھوتوں کی۔آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوؤں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا۔‘‘ مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوؤں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں؟ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصہ دار ہوسکتا ہے؟ خواہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔‘‘ براہ کرم اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لا کر چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟
سوال: کن اصول، خطوط اور بنیادوں پر ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی و معاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہیں، اسلامی اصول، روایات اور نقطہ نظر کے مطابق ممکن ہے؟ براہ کرم حسب ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی رائے تحریر کیجیے۔
سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم علیہ السلام کی خلافت ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسرں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانون الہٰیہ کے آگے مفتوح کر دے۔لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی زمین کا ایک گوشہ! تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چین کی زندگی بسر کر سکیں۔ کیا خالص دینی نقطہ نظر سے یہ قابل اعتراض نہیں؟
سوال: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبہ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہو رہا ہے کہ اس صوبہ کے لوگ تقسیم ہند کے بعد اپنے صوبے کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں، ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں رائے دینی چاہیے اور کس طرف سے رائے دینی چاہیے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالس قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہو رہا ہے۔
سوال: رسالہ پیغامِ حق میں ابوسعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے۔اسلامی سیاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑے زوروشور سے پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اصول نیا نہیں ہے۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی کے نام سے اس کا چرچا رہا اور روم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ کیونکہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار و اقتدار مل جائے وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حلقہ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصور سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے، لیکن چونکہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں اس لیے نتیجتاً ان کا تصور پاپائے اعظم ہی کا تصور ہو کر رہ جاتا ہے۔پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں، لیکن وہ بھی وجہ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہِ کرم ترجمان القرآن کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرمادیں اور صحیح نظریہ کی توضیح کردیں۔