Skip to content
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات کا مجموعہ

مباہلہ و مناظرہ

سوال: میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں، مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودیؒ دعوتِ مباہلہ و مناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالانکہ نبیﷺ نے خود یہودسے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور انبیاء و سلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اورنہ ہی مناظرہ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض یا سنت نہیں ہے تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کر دیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

اعتراض کے پردے میں بہتان

سوال: رمضان ۱۳۷۵ھ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کر کے ان کے جواب دیے ہیں۔ اعتراض نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ اعتراض نہیں بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارۃً و کنایۃً بھی یہ بات نہیں لکھی‘‘۔ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔اے نے اپنی کتاب ’’مودودی مذہب حصہ اول‘‘ میں اس عبارت کے لیے ترجمان ربیع الثانی ۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں۔

بیوی کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض امور میں اس کو تحقیر بھی کر دیا ہے۔ مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ ان امور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

اذکارِ مسنونہ

سوال: آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیں جو حضرت اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں گزرے ہیں۔ حضرت نے تبلیغ و اشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔

افسرانِ بالا کے آنے پر مستعدی کی نمائش

سوال: میں ایک ورکشاپ میں ملازم ہوں، مگر ہمیں کبھی کبھی باہر دوروں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ ان دنوں ہمیں کام بہت کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہم اپنے اوقات کے اکثر حصے یونہی بیکار بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا کوئی آفیسر یہاں سے گزرنے والا ہے یا گزر رہا ہے تو فوراً ہی ہم اِدھر اُدھر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیتے ہیں تاکہ آفیسر کو معلوم ہو جائے کہ ہم کچھ کر رہے ہیں۔ اور جب وہ گزر جاتا ہے تو پھر ہم آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض مواقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کہ آفیسر کو ہمارے متعلق کیا خیال گزرے گا۔ اگرچہ میں اس قسم کا مظاہرہ بہت کم کرتا ہوں۔ جب بھی اس قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے تو طبیعت بہت پریشان ہوتی ہے۔ بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز بھی مجھے خدا کی عدالت میں مجرم بنا کر کھڑا کر دے۔ براہِ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطہ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دَم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پورے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدہ میں پڑا رہا ہوں۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہو جاتے ہیں؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پاؤں میں کڑے پہنا کر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہیں کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم اس غم و افسوس کے لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

نظامِ تعلیم کے متعلق چند بنیادی سوالات

سوال: بندہ درس تدریس کے کام سے ایک عرصہ سے وابستہ ہے اور آج کل یہاں زیر تعلیم ہے۔ یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔ چنانچہ شکاگو یونیورسٹی کی فرمائش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ اگر امریکن طرزِ تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔

شیطان کی حقیقت

سوال: لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی و موت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد و تناسل کے ذریعہ قائم ہے؟ کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازماتِ زندگی میں مشغول رہتے ہیں؟ اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟ کیا یہ اعضائے جسمانی میں سرایت کی جانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب و محرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے اگر ایسانہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔

لفظ فطرت کا مفہوم

سوال: ایک لفظ ’’فطرت کا استعمال بہت عام ہے آخر فطرت ہے کیا چیز؟ کیا یہ انسان کی خود پیدا کردہ چیز ہے؟ یا فطرت انسان کی ان پیدائشی صلاحیتوں کا نام ہے جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے؟ کیا فطرت انسان کی اپنی جدوجہد سے اچھی یا بری بن سکتی ہے یا انسان اس معاملہ میں بالکل مجبور ہے؟ اگر نہیں تو کیا فطرت کے نقائص جدوجہد کے ذریعہ دور کیے جاسکتے ہیں؟ یہ سوال میری اپنی ذات سے متعلق ہے۔ میری فطرت انتہائی ناقص ساخت کی معلوم ہوتی ہے جس کے اثرات میری گھٹی میں سمائے ہوئے ہیں اور باوجود انتہائی کوششوں کے دور نہیں ہوتے۔ اس لیے آپ سے استدعا ہے کہ مجھے کوئی مشورہ دیں۔

فتنۂ تصویر

سوال: آج کل تصویروں اور فوٹو گرافی کا استعمال کثرت سے ہے۔ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں ان کا استعمال ایک تہذیبی معیار بن گیا ہے۔ بازار کی دکانوں میں، مکانوں کے ڈرائنگ روموں میں، رسالوں کے سرورق پر، اخباروں کے کالموں میں، غرضیکہ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے اس لعنت سے سابقہ پڑتا ہے اور بعض اوقات توجہ مبذول ہو کے رہتی ہے۔ کیا نسوانی تصویروں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا گناہ ہے۔

Back To Top
Search