دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

سوال: میرے دو سوال حاضر خدمت ہیں امید ہے کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔

۱۔ دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟ دارالکفر اور دارالسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں؟ مجھے اس مسئلے پر تردد مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

سوال: مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی تصنیف ’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور انہوں نے وعدہ فرما لیا تھا کہ وہ آئندہ ایڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرما دیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت کی مزید وضاحت

سوال: بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں۔ چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں۔ ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراً خط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ترجمان القرآن کاموصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسائل وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباً سارا رسالہ ختم کر دیتا ہوں۔ اس دفعہ ’’رسائل و مسائل‘‘ میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔

طریقِ انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم

سوال: طریقِ انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں۔ میں ان کا خلاصہ پیش کر کے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے۔

۱۔ جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول و احکام کا تقاضا نہ رہے گا۔

اسلامی ریاست اور خلافت کے متعلق چند سوالات

سوال: یہ ایک سوالنامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں۔

۱۔ کیا اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

۲۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔

۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

دورِ جدید کی رہنما قوت، اسلام یا عیسائیت؟

سوال: بیسوی صدی کے اس مہذب ترقی یافتہ دور کی رہنمائی مذہبی نقطہ نظر سے اسلام کر سکتا ہے یا عیسائیت؟ کیا انسان کو سیکولرازم یا دہریت روحانی و مادی ترقی کی معراج نصیب کرا سکتی ہے؟ بالخصوص کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟

الخلافت یا الحکومت

سوال: اگر بیسوی صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟

اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق

سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو مثلاً عیسائی، یہودی، بودھ، جین، پارسی، ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟ کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ بھی اسی طرح کرنے کی اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اور دیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاً ادارہ مکتی فوج (Salvation Army) کیتھڈرل، کانونٹ، سینٹ جان یا سینٹ فرانسس وغیرہ جیسے ادارے قانوناً بند کر دیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہو چکا ہے) یا فراخدلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی۔ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا (عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جبکہ وہ نہ صرف فوج اور سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفادار ہوں؟

اسلامی حکومت میں متعصب مستشرقین کے افکار کی اشاعت

سوال: کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین، غیر مسلم اسکالرز اور پروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنے نقطہ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں بلکہ عمداً یا کم علمی و تعصب سے اسلامی تاریخ لکھنے میں حضور اکرمؐ، اہل بیت، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، و آئمہ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے۔ مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظرثانی شدہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبول کی ازواج مطہرات کو (Concubines) (لونڈیاں) لکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کے یہاں آکر لیکچر اور خطبات دینے اور ان کی تشہیر کرنے پرکیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کر دے گی؟ یا ان کتابوں اور زہر آلود لٹریچر کی ہماری لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جاسکتی ہے؟ حکومت ان کے جوابات و تردید شائع کرنے ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کر سکتی ہے؟

نظامِ عدل میں تغیرات اور ان کی نوعیت

سوال: اس برصغیر میں چونکہ تمام قانونی ضابطہ ہائے دیوانی، فوجداری، مالیاتی اور عملدرآمد کے قوانین (Procedural Law) وغیرہ عرصہ سے ہر عدالت میں جاری و ساری ہیں، اور چونکہ ڈیڑھ صدی سے تمام لوگ بالخصوص جج اور وکلاء وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں، اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل (British Rull of Law) کا سارا ڈھانچہ بدلنا ممکن نہ ہوسکا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جبکہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع، مرتب یا مکمل اور مدون (Codified) نہیں ہے؟ اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا اسی طرح (Procedural Law) کے تحت انہیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (Litigation) کو طول دینے کا اختیار ہوگا؟ کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگسار کی سزائیں دی جائیں گی؟ اور کیا قاضیوں کو قانونِ شہادت (Evidence Law) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟ پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ (United Nations) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف یا کمرشل ٹربیونل اور لیبر قوانین وغیرہ کی عملداری دخل اندازی یا انٹرنیشنل لاء پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من و عن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہوگا؟ اگر اسی قسم کے ادارے اسلامی کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ کو نظرثانی (Review) کرنے کا اختیار ہوگا؟ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جاسکتے ہیں؟