حدیث اور فقہ

سوال: ذیل میں آپ کے لٹریچر سے چند اقتباسات دربارہ مسئلے تقلید و اجتہاد و مرتب کرکے کچھ استفسارات کئے جاتے ہیں۔ان سے صرف علمی تحقیق مقصود ہے، بحث مدعا نہیں ہے:

۱۔ ’’تمام مسلمان چاروں فقہوں کو برحق مانتے ہیں۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملے میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے علماء نے طے کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک ہی پیروی کرنی چاہئے۔‘‘ (رسالہ دینیات طبع دوم ۱۲۵)

اسلامی نظام جماعت میں آزادی تحقیق

سوال: ’’تفہیمات‘‘ کا مضمون ’’مسلک اعتدال‘‘ جس میں صحابہ کرام اور محدثین کی باہمی ترجیحات کو نقل کیا گیا ہے اور اجتہاد مجتہد اور روایت محدث کو ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس مضمون سے حدیث کی اہمیت کم اور منکرین حدیث کے خیالات کو تقویت حاصل ہوتی ہے، یہ رائے نہایت درجہ ٹھنڈے دل سے غورو فکر کا نتیجہ ہے۔

اس قسم کے سوالات اگر آپ کے نزدیک بنیادی اہمیت نہیں رکھتے تو جماعت اسلامی کی ابتدائی منزل میں محدثین و فقہا اور روایت و درایت کے مسئلہ پر قلم اٹھانا مناسب نہیں تھا۔ اس مسئلہ کے چھیڑ دینے سے غلط فہمیاں پھیل نکلی ہیں۔ اب بہتر ہے کہ بروقت ان غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا جائے کیونکہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے والے خیالات جس لٹریچر میں موجود ہوں اسے پھیلانے میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں، حالانکہ نظم جماعت اسے ضروری قرار دیتا ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریرں مع تنقید اخبارات و رسائل میں شائع کردی جائیں۔

احادیث کی تحقیق میں اسناد اور تفقہ کا دخل

سوال: خط و کتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اطمینان بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہوسکتی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلہ ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہل حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے اس کی اصلاح و تنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے۔ جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔ باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیونکہ اب سے پہلے بھی اخبار اہل حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب…… میں تفہیمات کے اقتباسات(مسلک اعتدال) سنا سنا کر جماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افراد میں بد دلی پیدا کر رہے ہیں اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میں مزاحمت ہو رہی ہے۔

جزئیاتِ شرع اور مقتضیاتِ دین

سوال: “اجتماع میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت و تبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گذشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم و استقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت و جرات کے ساتھ ادا ہوتی رہیں۔

اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر کے بعض فقرے میرے بعض ہمدرد رفقا کے لیے باعث تکدر ثابت ہوئے اور دوسرے مقامات کے مخلص ارکان و ہمدردوں میں بھی بددلی پھیل گئی۔ عرض یہ ہے کہ منکرین خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم، تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے؟ کیا ان کے اعتراضات و شبہات حکمت و موعظۂ حسنہ اور حلم و بردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟ اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیت جذبات کا پتہ دے رہے تھے۔

سوال: حالیہ اجتماع دارالاسلام کے بعد میں نے زبانی بھی عرض کیا تھا اور اب بھی اقامت دین کے فریضہ کو فوق الفرائض بلکہ اصل الفرائض اور اسی راہ میں جدوجہد کرنے کو تقویٰ کی روح سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ “مظاہر تقویٰ” کی اہمیت کی نفی میں جو شدت آپ نے اپنی اختتامی تقریر میں برتی تھی وہ نا تربیت یافتہ اراکین جماعت میں “عدم اعتنا بالسنتہ” کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور میں دیانتہً عرض کرتا ہوں کہ اس کے مظاہر میں نے بعد از اجلاس ملاحظہ کیے۔ اس شدت کا نتیجہ بیرونی حلقوں میں اولاً تو یہ ہوگا کہ تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی بعض داعیین تحریک نے “استہزابالستنہ” کی ابتدا اسی طرح کی تھی کہ بعض مظاہر تقویٰ کو اہمیت دینے اور ان کا مطالبہ کرنے میں شدت اختیار کرنے کی مخالفت جوش و خروش سے کی۔ دوسرے یہ کہ شرارت پسند عناصر کو ہم خود گویا ایک ایسا ہوائی پستول فراہم کردیں گے جو چاہے درحقیقت گولی چلانے کا کام ہر گز نہ کرسکے مگر اس کے فائر کی نمایشی آواز سے حق کی طرف بڑھنے والوں کو بدکایا جاسکے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے معاملات میں عوام کے مبتلائے فتنہ ہوسکنے کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ بیت اللہ کی عمارت کی اصلاح کا پروگرام حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے محض قوم کی جہالت اور جدید العہد بالاسلام ہونے کے باعث ملتوی کردیا تھا اور پھر اتنی احتیاط برتی کہ کبھی کسی وعظ اور خطبے میں لوگوں کو اس کی طرف توجہ تک نہیں دلائی، بجز اس کے کہ درون خانہ حضرت عائشہ صدیقہؐ سے آپ نے اس کا تذکرہ ایک دفعہ کیا۔

سنت اور عادت کا اُصولی فرق

سوال: آپ نے مظاہر تقویٰ پر اپنے خیالات کی توثیق فرماتے ہوئے سنت و بدعت کے بارے میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ہیں کہ “سنت و بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو میں غلط، بلکہ دین میں تحریف سمجھتا ہوں جو آپ کے ہاں رائج ہیں۔” عرض ہے کہ یہ مسئلہ دراصل اُصولی ہے۔ اس پر اگر اطمینان بخش فیصلہ ہوجائے تو بہت سے جزوی مسائل، بلکہ اکثر نزاعات اور ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں۔ لہٰذا سنت اور عادت کی ایسی جامع تعریف فرما دیجیے جو مانع بھی ہو اور اس کے ساتھ ہی بدعت کے متعلق بھی اپنی تحقیق سے ممنون فرمائیں۔

میدان جنگ میں قحبہ گری کے انتظامات اور اسلام

سوال: آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم از کم دو سال سے پہلے نا ممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیونکہ جنگ کے جذبہ کی بیداری کے ساتھ تمام جذبات سفلی بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹرڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہو رہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے (WACI) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں، ممکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدہ کے حل کا کیا طریق بناتا ہے۔ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کر سکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری(Prostitution) نہیں ہے؟

ایک ہندو دوست کا خط اور اس کا جواب

’’دیر کے بعد خط لکھ رہا ہوں۔ اس طویل غیر حاضری کی وجہ صرف یہ خیال تھا کہ آپ کی جملہ تصنیفات کو مطالعہ کرنے کے بعد اپنے خیالات کو آپ کی خدمت میں وضاحت سے پیش کرسکوں گا۔سو اب آپ کی کلیات کا ایک مرتبہ سرسری مطالعہ کر چکا ہوں۔ فی الحقیقت اپنے مشن کے لیے جہاں تک اخلاص کا تعلق ہے۔ میں نے آپ کو شری…… کے بعد واحد پہلا اور آخری رہنما پایا ہے۔ ’’آخری‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ شری…… جی جنہیں میں موجودہ دور میں ہندوؤں کی عظیم ترین شخصیت…

گائے، تناسخ اور گرنتھ صاحب

سوال: حسب ذیل امور کے متعلق اپنی معلومات کی روشنی میں حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائیے۔

(۱) گائے کی تعظیم و تقدیس جو ہندو بھائیوں میں رائج ہے، اس کی وجہ سے سینکڑوں دفعہ ہندو مسلم فسادات واقع ہوچکے ہیں۔ آخر یہ کیا مسحوریت ہے کہ ہندوؤں میں بڑے بڑے معقول عالم موجود ہیں لیکن کوئی اس مسئلہ کی نوعیت پر غور نہیں کرتا، حتٰی کہ گاندھی جی جیسے فہمیدہ اور جہاندیدہ لیڈر بھی مذہبیت کی اس کشتی پر سوار ہیں جسے عوام نے ایسے ہی چند مسائل پر جوڑ ملا کر تعمیر کیا ہے۔ آپ اس گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی تو ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں۔

علم ظاہر اور علم باطن

سوال: اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’علم باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضیات و مجاہدات سے حاصل ہو سکتا ہے۔چنانچہ امت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انہوں نے کتاب و سنت اور فقہ و کلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو ’’علم ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد ’’علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں تب کہیں جا کر انہیں ’’روحانی‘‘ علوم حاصل ہوئے اور ان کو انہوں نے ہمیشہ علوم ظاہری پر ترجیح دی۔براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے علم باطنی کی کیا تعریف ہے؟ اس کی حقیقت کیا تھی؟ اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں؟ کیا یہ علم ریاضیات و مجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟ اور کیا علوم ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟