مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت

سوال: کن اصول، خطوط اور بنیادوں پر ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی و معاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہیں، اسلامی اصول، روایات اور نقطہ نظر کے مطابق ممکن ہے؟ براہ کرم حسب ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی رائے تحریر کیجیے۔

مطالبہ پاکستان

سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم علیہ السلام کی خلافت ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسرں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانون الہٰیہ کے آگے مفتوح کر دے۔

لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی زمین کا ایک گوشہ! تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چین کی زندگی بسر کر سکیں۔ کیا خالص دینی نقطہ نظر سے یہ قابل اعتراض نہیں؟

جماعت اسلامی اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

سوال: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبہ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہو رہا ہے کہ اس صوبہ کے لوگ تقسیم ہند کے بعد اپنے صوبے کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں، ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں رائے دینی چاہیے اور کس طرف سے رائے دینی چاہیے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالس قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہو رہا ہے۔

حکومت الہٰیہ اور پاپائیت کا اصولی فرق

سوال: رسالہ پیغامِ حق میں ابوسعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے۔

اسلامی سیاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑے زوروشور سے پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اصول نیا نہیں ہے۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی کے نام سے اس کا چرچا رہا اور روم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ کیونکہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار و اقتدار مل جائے وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حلقہ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصور سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے، لیکن چونکہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں اس لیے نتیجتاً ان کا تصور پاپائے اعظم ہی کا تصور ہو کر رہ جاتا ہے۔

پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں، لیکن وہ بھی وجہ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہِ کرم ترجمان القرآن کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرمادیں اور صحیح نظریہ کی توضیح کردیں۔

نظامِ کفر کی قانون ساز مجالس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

سوال: آپ کی کتاب ’’اسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ پڑھنے کے بعد یہ حقیقت تو دلنشین ہوگئی ہے کہ قانون سازی کا حق صرف خدا ہی کے لیے مختص ہے اور اس حقیقت کے مخالف اصولوں پر بنی ہوئی قانون ساز اسمبلیوں کا ممبر بننا عین شریعت کے خلاف ہے۔ مگر ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر تمام مسلمان اسمبلیوں کی شرکت کو حرام تسلیم کرلیں تو پھر سیاسی حیثیت سے مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی قوت ہی سے قوموں کی فلاح و بہبود کا کام کیا جاسکتا ہے اور ہم نے اگر سیاسی قوت کو بالکلیہ غیروں کے حوالے ہوجانے دیا تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اغیار مسلم دشمنی کی وجہ سے ایسے قوانین نافذ کریں گے اور ایسا نظام مرتب کریں گے جس کے نیچے مسلمان دب کر رہ جائیں پھر آپ اس سیاسی تباہی سے بچنے کی کیا صورت مسلمانوں کے لیے تجویز کرتے ہیں؟

غیر اسلامی اسمبلیوں کی رکنیت اور نظام کفر کی ملازمت شرعی نقطہ نظر سے

سوال: ’’مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں اور ان کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجھ پر دباؤ پڑ رہا ہے۔ حتیٰ کہ علما تک کا مطالبہ یہی ہے۔ اگرچہ مجملاً جانتا ہوں کہ انسانی حاکمیت کے نظریے پر قائم ہونے والی اسمبلی اور اس کی رکنیت دونوں شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہیں۔ مگر تاوقتیکہ معقول وجوہ پیش نہ کر سکوں، ووٹ کے مطالبے سے چھٹکارا پانا دشوار ہے۔

یہ امر بھی دریافت طلب ہے کہ سرکاری ملازمت کی حیثیت کیا ہے؟ اس معاملہ میں بھی سرسری طور پر میری رائے عدم جواز کی طرف مائل ہے مگر واضح دلائل سامنے نہیں ہیں۔‘‘

پر امن انقلاب کا راستہ

سوال: ذیل میں دو شبہات پیش کرتا ہوں۔ براہ کرم صحیح نظریات کی توضیح فرماکر انہیں صاف کردیجیے۔

(۱) ترجمان القران کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبیﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انہوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کر لیا اور یہ طریق کار اختیار نہیں کیا کہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں۔ کیا آج بھی جبکہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنا زیادہ ہمہ گیر ہوچکا ہے۔ اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔ مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف علیہ السلام کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو نبیﷺ کا اسوہ واجب الاتباع ہے۔ آپﷺ نے اہل مکہ کی بادشاہت کی پیشکش کو رد کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریق کار اب یہی ہے۔ واضح فرمائیے کہ میری یہ رائے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔

غیر اسلامی حکومت کے ذریعے تحصیل زکوٰۃ

سوال: حالات حاضر کا پیدا کردہ ایک سوال کرتا ہوں۔ یہ کہ کیا ہماری شریعت میں کسی کافر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہم سے صدقات واجبہ وصول کرے یا یہ کہ حکومت کفر کی قانونی قوت کے ذریعہ ان کی وصولی کا اہتمام کیا جائے، اور وہ اس طرح کے اسمبلی میں ایک زکوٰۃ بل پاس کرالیا جائے؟ امید ہے کہ واضح جواب دیا جائے گا۔

تحریک اقامت دین کے بارے میں چند سوالات

سوال: جماعت اسلامی کی شرکت کو اپنے لئے لازمی سمجھ لینے کے باوجود مجھے چند شبہات اپنے دل میں کھٹکتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اگر ممکن ہوتو اپنی بصیرت سے ان الجھنوں کو صاف کر دیجئے۔ شبہات یہ ہیں۔ (۱) آپ اپنی تحریروں کے ذریعے برسوں سے اقامت دین کی دعوت دے رہے ہیں۔ دو سال سے جماعت بھی قائم ہے۔ بقول آپ کے اس تحریک کے مزاج کے مطابق بہت تھوڑے آدمی ملے ہیں اور جو ملے ہیں ان میں وہ صفات بہت کم ہیں جن صفات کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ صفات…