سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلے کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔
قرآن مجید کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں نبی کریمؐ پر نازل ہوا تھا حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی … لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قرأت مختلف طریقوں سے مروی ہے ، جن میں اعراب کا فرق عام ہے بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔
اگر پہلی بات صحیح ہو تو اختلاف قرأت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علما کا اختلاف قرأت کی تائید کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر دوسری بات کو صحیح مانا جائے تو قرآن کی صحبت مجروح ہوتی نظر آتی ہے ۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنا فرق ہو جاتا ہے۔
یہاں میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔