ازواج مطہراتؓ پر زبان درازی کا الزام
سوال: آپ نے سورۂ تحریم کی آیت إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ… الآیہ کی تشریح کرتے ہوئے تفہیم القرآن میں حضرت عمرؓ کی جو روایت بخاری اور مسند احمد سے نقل کی ہے، اس میں حضرت عمرؓ کے الفاظ ’’لاَ تُراجِعی‘‘ کا مفہوم ’’رسول اللہﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر‘‘ (ترجمان القرآن، جلد ۷۲ عدد ۴ صفحہ ۲۲۳، آخری سطر) اگرچہ صحیح ہے لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان الفاظ کو بدلنے پر غور فرمائیں کیونکہ اہلِ زَیغ نے آپ پر منجملہ بہت سے الزامات کے ایک یہ الزام بھی بڑے زور و شور سے پھیلا رکھا ہے کہ مولانا مودودی نے ازواج مطہرات کو ’’زبان دراز‘‘ کہہ کر ان کی گستاخی اور بے ادبی کی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تفہیم القرآن میں ’’زبان درازی نہ کر‘‘ کے الفاظ کی جگہ’’پلٹ کر جواب نہ دے‘‘ یا ’’دوبدو جواب نہ دے‘‘ کے الفاظ رکھ دیں تو مفہوم کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور اہلِ زَیغ کے ہاتھ میں بھی پروپیگنڈہ کے لیے شوشہ نہیں آئے گا‘‘۔