اسلام میں قطع ید کی سزا
سوال: اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹ دینا ہے۔ آج کل روزانہ سینکڑوں چوریاں ہوتی ہیں تو کیا روزانہ سینکڑوں ہاتھ کاٹے جائیں گے؟ بظاہر حالات یہ سزا سخت اور ناقابل عمل معمول ہوتی ہے۔
سوال: اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹ دینا ہے۔ آج کل روزانہ سینکڑوں چوریاں ہوتی ہیں تو کیا روزانہ سینکڑوں ہاتھ کاٹے جائیں گے؟ بظاہر حالات یہ سزا سخت اور ناقابل عمل معمول ہوتی ہے۔
سوال: راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح و جنگ کے باب میں ص ۲۴۰ ضمن (۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا، اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے‘‘۔
سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو مثلاً عیسائی، یہودی، بودھ، جین، پارسی، ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟ کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ بھی اسی طرح کرنے کی اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اور دیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاً ادارہ مکتی فوج (Salvation Army) کیتھڈرل، کانونٹ، سینٹ جان یا سینٹ فرانسس وغیرہ جیسے ادارے قانوناً بند کر دیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہو چکا ہے) یا فراخدلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی۔ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا (عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جبکہ وہ نہ صرف فوج اور سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفادار ہوں؟
سوال: اس برصغیر میں چونکہ تمام قانونی ضابطہ ہائے دیوانی، فوجداری، مالیاتی اور عملدرآمد کے قوانین (Procedural Law) وغیرہ عرصہ سے ہر عدالت میں جاری و ساری ہیں، اور چونکہ ڈیڑھ صدی سے تمام لوگ بالخصوص جج اور وکلاء وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں، اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل (British Rull of Law) کا سارا ڈھانچہ بدلنا ممکن نہ ہوسکا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جبکہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع، مرتب یا مکمل اور مدون (Codified) نہیں ہے؟ اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا اسی طرح (Procedural Law) کے تحت انہیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (Litigation) کو طول دینے کا اختیار ہوگا؟ کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگسار کی سزائیں دی جائیں گی؟ اور کیا قاضیوں کو قانونِ شہادت (Evidence Law) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟ پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ (United Nations) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف یا کمرشل ٹربیونل اور لیبر قوانین وغیرہ کی عملداری دخل اندازی یا انٹرنیشنل لاء پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من و عن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہوگا؟ اگر اسی قسم کے ادارے اسلامی کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ کو نظرثانی (Review) کرنے کا اختیار ہوگا؟ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جاسکتے ہیں؟
سوال: پاکستان میں جماعت اسلامی کے مخالف حضرات پھر اس مہم کو چلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اس سلسلہ میں وہ سب سے زیادہ زور اس مسئلہ پر دیتے ہیں کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پاکستان میں حدود و قصاص اور شرعی سزاؤں کو ظلم کہتے ہیں حالانکہ یہ قرآن کی تجویز کردہ سزائیں ہیں۔ حال ہی میں ایک ممتاز عالم نے قومی اسمبلی میں آپ کے متعلق اس قسم کا ایک بیان دیا ہے جو بعض جرائد میں شائع ہوچکا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جب ہم جرائم کے انسداد کی غرض سے شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کی مخلوط سوسائٹی میں حدود اور شرعی سزاؤں کا نفاذ ظلم ہے۔ اور مولانا کی تحریریں پڑھ کر ہمیں سنائی جاتی ہیں۔ یہ حضرات اسمبلیوں سے باہر آکر لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور حدود و قصاص اور شرعی سزاؤں کے نفاذ کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ وہی لوگ ڈالتے ہیں جو خود اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں یعنی آپ اور جماعت اسلامی۔
سوال: تفہیمات کا مضمون (قطع ید اور دوسرے شرعی حدود) ایک عرصہ سے عنوان بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں جناب مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا۔ انہوں نے مضمون متذکرہ کو غور سے مطالعہ کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ مندرجہ ذیل استفسار آنجناب سے کیا جائے: