کیا صحابہ کرامؓ آنحضور کی تجہیزو تکفین چھوڑ کر فکر خلافت میں لگے رہے؟
سوال: صحابہ کرامؓ اور خاص طور پرحضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے کفن دفن میں شریک نہ ہوئے اور خلافت و بیعت کے مسئلے میں الجھے رہے۔ حضورﷺ کے غسل اور کفن دفن میں شریک ہونا کتنی بڑی سعادت تھی اور خود محبت رسول اللہﷺ کا کیا تقاضا تھا؟
جواب: یہ قصہ کہ رسول اللہﷺ کا جنازہ بے گورو کفن پڑا تھا اور صحابہ کرامؓ حضورﷺ کی تجہیزو تکفین کی فکر چھوڑ کر خلافت کی فکر میں پڑ گئے، در حقیقت بالکل ہی بے سروپا داستان ہے۔ اصل واقعات یہ ہیں کہ حضورﷺ کی وفات پیر کے روز شام کے قریب ہوئی۔ بخاری و مسلم میں حضورﷺ کے خادم انس بن مالکؓ نے ’’آخر یوم‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سانحہ عظیم عصر و مغرب کے درمیان پیش آیا تھا۔ فطری بات ہے کہ اس سے پوری جماعت اہل ایمان کے ہوش پراگندہ ہوجانے چاہئیں تھے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حضرت عمرؓ کو یہی یقین نہ تھا کہ سرور عالم واقعی وفات پاگئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آخر جب تقریر کی تو لوگوں کو پوری طرح یقین ہوا کہ وہ ناگزیر بات جو پیش آنی تھی، پیش آچکی ہے۔ اتنے میں رات آگئی۔ یہ ممکن اور مناسب نہ تھا کہ راتوں رات تجہیز و تکفین کرکے حضورﷺ کو دفن کردیا جاتا۔ کیوں کہ جنازے میں شرکت کی سعادت سے محروم رہ جانا ان ہزاروں مسلمانوں کو ناگوار ہوتا جو مدینہ طیبہ اور اس کی نواحی بستیوں میں رہتے تھے۔ لازماً ان کو شکایت ہوتی کہ آپ لوگوں نے ہمیں آخری دیدار اور نمازجنازہ کا موقع بھی نہ دیا۔ اس لیے رات بہر حال گزارنی تھی۔ اس رات صحابہؓ کے مختلف گروہ اپنی اپنی جگہ جمع ہو کر سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ ازواج مطہرات حضرت عائشہؓ کے پاس گریہ وزاری میں مشغول تھیں جہاں حضورﷺ نے وفات پائی تھی۔ حضرت علیؓ حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور دوسرے قرابت داران رسول اللہﷺ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھر میں جمع تھے۔ مہاجرین کی ایک اچھی خاصی تعداد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس غمگین و متفکر بیٹھی تھی۔ انصار کے مختلف گروہ اپنے اپنے قبیلوں کی چوپالوں (سقیفہ کے اصل معنی چوپال ہی کے ہیں) میں اکھٹے ہو رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ بنی ساعدہ کی چوپال میں انصار کا ایک بڑا گروہ جمع ہے اور وہاں رسول اللہﷺ کی جانشینی کا مسئلہ چھڑ گیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ، جو حضورﷺ کے بعد مسلمانوں کی جماعت میں ’’بڑے‘‘ سمجھے اور مانے جاتے تھے، یہ خبر سن کر فکر مند ہوئے کہ ابھی سردار ملت کی آنکھ بند ہوئی ہے، ساری امت اس وقت بے سر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے اور جماعت کا نظم از سر نو قائم ہونے سے پہلے ہی بد نظمی اپنے قدم جمالے۔ اس لیے یہ تینوں حضرات فوراً برسر موقع پہنچ گئے اور راتوں رات انہوں نے حضورﷺ کی جانشینی کے مسئلے کو، جو ایک فتنہ خیز صورت میں طے ہوا چاہتا تھا، اس صحیح شکل میں سلجھا لیا، جس کے صحیح ہونے پر تاریخ اپنی مہر تصدیق ثبت کرچکی تھی۔ یہ سارا واقعہ اسی رات کا ہے جس شام کو حضورﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ رات کو بہرحال حضورﷺ کی تجہیزو تکفین نہیں کرنی تھی جس کی مصلحت اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ اسی رات خلافت کا مسئلہ طے کیا گیا۔ صبح سویرے مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا اعلان ہوا۔ مہاجرین و انصار سب نے اسے قبول کرکے جماعت کا نظام بحال کردیا اور اس کے بعد بلا تاخیر حضورﷺ کی تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوگیا۔
یہ کہنا بالکل ہی خلاف واقعہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور حضورﷺ کی تجہیز و تکفین سب آپ کے اہل بیت نے کی۔ یہ تجہیز و تکفین کسی نے بھی پیر اور منگل کی درمیانی شب میں نہ کی تھی۔ اس کا آغاز منگل کی صبح کو اس وقت ہوا ہے جب کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوچکی تھی اور یہ کام حضرت عائشہؓ کے حجرے میں ہوا ہے جس کا ایک دروازہ اسی مسجد نبوی میں کھلتا تھا جہاں مدینہ طیبہ کے سارے صحابہؓ جمع تھے۔ جہاں گردو نواح کے لوگ وفات کی خبر سن سن کر چلے آ رہے تھے، اور جہاں حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تھی۔ جن لوگں کو کبھی مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حجرہ حضرت عائشہؓ (جس میں سرکار مدفون ہیں) اور مسجد نبویﷺ کا مکانی تعلق کیا ہے۔ وہ یہ بات سن کر ہنس دیں گے کہ صحابہ کرامؓ، مسجد نبوی میں اپنی خلافت کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور بے چارے اہل بیت حجرہ حضرت عائشہؓ میں حضورﷺ کی تجہیزو تکفین کر رہے تھے۔ غلط بات تصنیف کرنا بھی ہو تو اس کے لیے بھی کم از کم کچھ سلیقہ تو چاہیے۔
یہ بات کہ حضورﷺ کو غسل و کفن صرف آپؐ کے اہل بیت نے دیا، یہ بھی خلاف واقعہ ہے۔ اس خدمت کو انجام دینے والے حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ ، فضلؓ بن عباس، قثم بن عباسؓ، اسامہ بن زیدؓ اور شقرانؓ (حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام) تھے، اور انہوں نے اس خیال سے حجرے کا دروازہ بند کر رکھا تھا کہ لوگوں کا ہجوم باہر زیارت کے لیے بے چین کھڑا تھا۔ اگر دروازہ کھلا رہنے دیا جاتا تو اندیشہ تھا کہ زیادہ لوگ آندر آجائیں گے اور کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر بھی انصار نے جب شور مچایا کہ ہمیں بھی تو اس سعادت میں حصہ ملنا چاہیے تو ان میں سے ایک صاحب (اوس بن خولی) کو اندر بلالیا گیا۔ کفن پہنانے کے بعد سوال ہوا کہ حضورﷺ کے لیے قبر کہاں تیار کی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حدیث پیش کی کہ مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ (نبی کا انتقال جہاں ہوتا ہے، وہیں اس کو دفن کیا جاتا ہے) اور اسی پر فیصلہ ہوا کہ حجرہ حضرت عائشہؓ ہی میں آپؐ کے لیے قبر تیار کی جائے۔ حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل انصاری نے قبر کھودی۔ پھر لوگوں نے گروہ در گروہ اندر جا کر نماز جنازہ پڑھنی شروع کی اور رات تک مسلسل یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو نصف شب کے قریب دفن کی نوبت آئی۔ معلوم نہیں کہ اس پوری مدت میں آخر وہ کون سا وقت تھا جب حضورﷺ کے اہل بیت بے یار و مدد گار آپؐ کے جسد اطہر کو لیے بیٹھے رہے اور صحابہ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں مشغول رہے؟
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۵۸ء)