قبولیت دعا کے لیے قبروں پر چلہ کشی
سوال: مشائخ صوفیاء کرام کے بعض تذکروں میں یہ ذکرملتا ہے کہ فلاں صاحب نے فلاں بزرگ کی قبر پر مراقبہ اور چلہ کیا؟ اور یہ بھی فلاں بزرگ کا یہ قول اور تجربہ ہے کہ فلاں قبر پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا قبولیت کا سبب ہوتا ہے؟ اس کی دین میں اصل کیا ہے؟
جواب: اول تو دین میں اصل چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ، نہ کہ بزرگوں کے اقوال و افعال۔ دوسرے خود بزرگوں کے اقوال و افعال کے متعلق جو مواد تذکروں میں ملتا ہے، وہ بھی ایسامستند نہیں ہے کہ اس کی بنا پر یہ اطمینان کیا جاسکے کہ واقعی ان بزرگوں کے اقوال و افعال وہی تھے جو ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ایسی چیزوں کو مآخذ مان کر ان کی پیروی کرنا میرے نزدیک سخت بے احتیاطی ہے۔ مخفوظ طریقہ وہی ہے جو ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے، جس کے دور صحابہ کرامؓ اور دور تابعین میں رائج ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور جس کو امت کے محدثین اور فقہا نے منقّح اور مدوّن کرکے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا جو شخص دین کی یقینی اور قابل اعتماد راہ پر چلنا چاہتا ہو، اس کو اس محفوظ طریقہ سے تجاوز کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ باہر جو کچھ ہے، وہ کم از کم خطرے سے تو خالی نہیں ہے۔ اب اسی معاملے کو لیجیے جس کے متعلق آپ سوال کر رہے ہیں۔ جن تذکروں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ فلاں فلاں بزرگوں نے یہ کام کیا تھا، ان کی روایات کا کسی حدیث کی کسی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلہ میں بھی آخر کیا پایہ ہے؟ کس سند کی بنا پر یہ اعتماد یا گمان غالب ہوسکتا ہے کہ ان بزرگوں نے واقعی ایسا کیا تھا؟ فرض کیجیے کہ حقیقت میں انہوں نے ایسا نہ کیا ہو۔ اس صورت میں ان بے سند روایات کی پیروی کرکے ہم آخرت میں کس چیز کا سہارا لے کر جواب دہی کرسکیں گے؟ اگر عاقبت کی ہمیں فکر ہو اور ہم خود اپنی خیر چاہتے ہوں تو یہ کام کرنے سے پہلے ہم کو دین کے محفوظ طریقہ کی طرف رجوع کرکے اطمینان کرلینا چاہیے کہ وہاں کسب فیض یا قبولیت دعا کے لیے یہ راستہ بتایا گیا ہے یا نہیں؟ صحابہؓ نے خود نبیﷺ کے مزار مبارک پر کبھی چلہ کھینچا یا مراقبہ کیا؟ تابعین نے کبھی کسی صحابی کی قبر پر یہ کام کیا؟ فقہا و محدثین میں سے کسی نے اس کو مشروع طریقہ بتایا؟ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہیں یہ تعلیم دی کہ قبروں پر حصول فیض یا استجابت دعا کے لیے جاؤ؟ یا اللہ کے رسول ؐ نے اس طریق کار کی طرف کوئی اشارہ کیا؟ ان ذرائع سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہو تو اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا ہے، ورنہ یہ بالکل غلط نہ سہی، مشتبہ تو ماننا ہی پڑے گا۔ ایسا مشتبہ کام کرکے کیا میں یہ خطرہ مول نہ لوں گا کہ شاید وہ آخرت میں غلط ثابت ہو اور میں اللہ تعالیٰ کو اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکوں کہ جب دین کی حقیقی راہ معلوم کرنے کے قابل اعتماد ذرائع موجود تھے تو میں مشتبہ ذرائع کی طرف کیوں گیا؟
(فاران، توحید نمبر)
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ء)