اذان اور نماز کی دعاؤں کے متعلق چند شبہات
سوال: ایک دن میں صبح کی اذان سن رہا تھا کہ ذہن میں عجیب و غریب سوالات ابھرنے لگے اور شکوک و سبہات کا ایک طوفان دل میں برپا ہوگیا … اذان سے ذہن نماز کی طرف منتقل ہوا اور جب سوچنا شروع کیا تو نماز کی عجیب صورت سامنے آئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نماز کس طرح پڑھوں اور کیا پڑھوں؟
ایک مسلمان کو ماں کی گود ہی میں جو اولین درس ملتا ہے، وہ یہ ہے ’’اللہ ہی لائق عبادت ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں‘‘ … پھر۔
(۱) اذان بلاوا ہے خالصۃً اللہ کی عبادت کے لیے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں تو اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ ہی اشھد ان محمد رسول اللہ کے کیا معنی؟
(۲) نماز میں سورہ فاتحہ، اخلاص یا کوئی اور سورہ جو ہم پڑھتے ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی حمد و ثنا اور عظمت و بزرگی کا بیان ہے۔ اسی طرح رکوع و سجود میں اس کی تسبیح و تحلیل بیان ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو حضور سرور کائنات محمد مصطفیٰ ﷺ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ تشہد اور دونوں درود شریف وغیرہ۔ کیا اس طرح حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک نہیں ہوجاتے؟
(۳) دونوں درود شریف جو ہم پڑھتے ہیں، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ اس طرح نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم تو پڑھتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ الِ مُحَمَّدٍ (اے اللہ رحمت فرما محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر) یہ دونوں درو شریف در حقیقت دعائیں ہیں اور اسی طرح تشہد اور دعا رَبِّ اجْعَلْنِیْ بھی۔ عبادت نام دعاؤں کا نہیں بلکہ اس خالق ارض و سما کی حمد و ثنا بیان کرنے کا نام ہے تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں ہے کہ عبادت کے اختتام پر دعائیں مانگی جائیں، بہ نسبت اس کے کہ عین عبادت میں دعائیں مانگنی شروع کردی جائیں؟ میرا خیال یہ ہے کہ حضورﷺ خود تشہد اور درود شریف نہیں پڑھتے ہوں گے کیوں کہ آپﷺ سے یہ بعید ہے کہ عین نماز میں آپؐ اپنے لیے دعائیں مانگنے لگتے۔ پھر ذرا تشہد پر غور فرمائے۔ ظاہر ہے کہ درود کی طرح اگر حضورﷺ تشہد بھی پڑھتے تھے تو وہ بھی الگ ہوگا۔ کیوں کہ ’’اے نبی! تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں‘‘۔ کی جگہ آپؐ پڑھتے ہوں گے: ’’مجھ پر سلام اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں‘‘۔
(۴) اللہ کی جو عبادت ہم بجا لاتے ہیں، اس کا نام الصلوٰۃ یعنی نماز ہے۔ پھر یہ فرض، سنت، وتر، نفل کیا چیز ہیں اور یہ پڑھ کر ہم کسی کی عبادت کرتے ہیں۔ جاتے تو ہم ہیں اللہ کی عبادت بجا لانے اور پڑھنے لگتے ہیں نماز سنت، جس کی نیت بھی یوں باندھتے ہیں دو رکعت نماز سنت، سنت رسول اللہ ﷺ کی وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس طرح بھی حضورﷺ کا اللہ کی عبادت میں شریک ہوجانا ثابت نہیں ہوتا؟
(۵) نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں، اس کا مخاطب کون ہے؟
(۶) کیا حضورﷺ بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے؟ اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسی نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی ہے کہ نبیﷺ نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح موطا کتاب الصلوٰۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔
ان خیالات و شکوک نے ذہن کو پراگندہ کر رکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ نماز وہ نہیں جو آنحضرت ﷺ نے بتائی ہوگی۔ خدارا میری الجھن دور فرمائے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچائے۔ مجھے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
جواب: آپ کے دل میں جو وساوس پیدا ہواکریں تو ان کی وجہ سے نماز ترک نہ کردیا کریں، بلکہ نماز پڑھتے رہیں اور اپنے وساوس کے متعلق کسی جاننے والے سے پوچھ کر اطمینان کرلیا کریں۔
جو سوالات آپ نے کیے ہیں، ان کے جوابات یہ ہیں:
(۱) اذان میں محمدﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دی جاتی ہے نہ کہ خدا ہونے کی۔ پھر آپ کے دل میں یہ شبہ کیوں پیدا ہوا کہ رسالت کی شہادت دینے سے عبادت میں شرک واقع ہوجائے گا؟ رسالت کی شہادت تو اس لیے دی جاتی ہے کہ ہم خدا کی عبادت اس عقیدے اور طریقے کے مطابق کر رہے ہیں جو رسول اللہﷺ نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہم نے خود اپنی فکر سے یہ طریقہ اور عقیدہ ایجاد نہیں کرلیا ہے۔
(۲) تشہد کی پوری عبادت پرغور کریں۔ پہلے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سلام پیش کرتے ہیں۔ پھر رسول اللہﷺ کے لیے رحمت و برکت کی دعا کرتے ہیں۔ پھر اپنے حق میں اور تمام نیک بندوں کے حق میں سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول ﷺ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر رسول اللہﷺ پر درود بھیجتے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے اس امر کی دعا ہے کہ وہ حضورﷺ پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے حق میں اور اپنے والدین کے حق میں بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ ان سارے مضامین کو آپ خود دیکھیں۔ ان میں کیا چیز ہے جسے آپ شرک کہہ سکتے ہیں؟ یہ تو ساری دعائیں اللہ تعالیٰ ہی سے ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا شرک ہے؟ اور کیا اللہ کے رسول ﷺ کو رسول ماننا بھی شرک ہے؟
(۳) یہ غلط فہمی آپ کو کہاں سے ہوگئی کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا عبادت نہیں ہے۔ دعا تو روح عبادت ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان مشرکین کو جو غیر اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، غیر اللہ کی عبادت کرنے والا قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ اکثر مقامات پر ِیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ کہنے کی بجائے یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگو۔
یہ تشہد جو ہم پڑھتے ہیں، یہ حضورﷺ نے صحابہ کرام کو سکھایا تھا اور انہیں ہدایت فرمائی تھی کہ تم یہ پڑھا کرو، اس لیے ہم کو نماز میں یہ پڑھنا چاہیے۔ رہا حضورﷺ کا اپنا تشہد، تو اس کے متعلق احادیث میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ حضورﷺ خود کیا پڑھتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آپﷺ کے تشہد میں کچھ الفاظ مختلف ہوتے ہوں اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضورﷺ خود بھی یہی تشہد پڑھتے ہوں۔ اگر ہم نماز میں اپنے لیے دعا کرتے ہیں تو آخر آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے کہ حضورﷺ بھی نماز میں اپنے لیے دعا فرماتے ہوں؟ اسی طرح اگر ہم حضورﷺ کے نبی ہونے کی شہادت دیتے ہیں تو اس میں آخر کیا خرابی ہے کہ نبیﷺ بھی اپنی نبوت کی شہادت دیتے ہوں؟
(۴) فرض نماز کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی وہ عبادت جو اس کے عائد کردہ فریضہ صلوٰۃ کو ادا کرنے کے لیے کم سے کم لازم ہے۔ جس کے بغیر حکم کی تعمیل سے ہم قاصر رہ جائیں گے۔ سنت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی وہ عبادت جو فرض کے علاوہ نبیﷺ ہمیشہ ادا کرتے تھے اور جس کی آپؐ نے ہمیں تاکید کی ہے۔ نفل سے مراد ہے خدا کی وہ عبادت جو ہم اپنی خوشی سے کرتے ہیں۔ جسے ہم پر نہ لازم کیاگیا ہے اور نہ جس کی تاکید کی گئی ہے۔ اب فرمائے کہ اس میں شرک کہاں سے آگیا؟ ’’سنت رسولﷺکی‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کی نماز پڑھی جارہی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ نماز ہے جو رسول اللہﷺ فرض سے زائد پڑھا کرتے تھے اور آپؐ کے اتباع میں ہم بھی پڑھتے ہیں۔
(۵) کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کرعبادت کر رہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیر کر اس عمل کو ختم کردیں۔ اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق خدا کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہوئے منہ پھیر یں۔ آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟
(۶) جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضورﷺ کا آخری عمل جب کہ نماز کے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھے کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تک تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔
(ترجمان القرآن۔ فروری ۱۹۶۱ء)