ایصال ثواب
سوال: مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ مجھے امید ہے کہ حسب معمول جواب عنایت فرمائیں گے۔
(۱) رسائل و مسائل حصہ دوم صفحہ ۲۹۶ پر ’’نذر و نیاز اور ایصال ثواب‘‘ کے عنوان کے تحت جو جواب آپ نے رقم فرمایا ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ مالی عبادت سے ایصال ثواب ہوسکتا ہے مگر بدنی عبادت سے نہیں اور پھر آپ مالی انفاق کے بھی متوفی عزیز کے لیے نافع ہونے کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرار دے رہے ہیں۔ کیا آپ کے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اس امر کی بابت کوئی صراحت قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ بدنی عبادت میں ایصال ثواب ممکن ہے؟ یا کوئی اور سبب ہے؟
آپ خود ایصال ثواب کرنے والے کے لیے تو انفاق کو بہرحال نافع قرار دے رہے ہیں مگر متوفی عزیز کے لیے نافع ہونے کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرار دے رہے ہیں۔ اس تفریق کی اصل وجہ کیاہے؟
(۲) کیا ہر شخص دوسرے متوفی شخص کو (خواہ متوفی اس کا عزیز ہو یا نہ ہو، یا متوفی نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کی تربیت میں حصہ لیا ہو یا نہ لیا ہو) مالی انفاق کا ثواب پہنچا سکتا ہے یا کہ اس کے لیے آپ کے نزدیک چند قیود و شرائط ہیں؟ ازراہ کرم اپنی رائے تحریر فرمادیں۔
جواب: آپ کے سوالات کے مختصر جوابات نمبر وار درج ہیں
(۱) دراصل تو قرآن و حدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے، ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا۔ لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں، ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکرہے جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ، یا مالی و بدنی عبادت ملی جلی ہے، جیسے حج، اسی بنا پر فقہا میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک گروہ اسے مالی اور بدنی عبادت دونوں میں جاری کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیے مخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت، مالی عبادت کے ساتھ ملی ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدہ کلیہ میں اگر کوئی استثناء کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثناء کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک وہ حکم سے نکلتا ہے۔ اسے عام کرنا میری رائے میں درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ شریعت میں اس کی گنجائش بھی پائی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اختلاف صرف ترجیح کا ہے۔
رہی یہ بات کہ ایصال ثواب کا میت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصال ثواب کی نوعیت محض ایک دعا کی ہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نے تیری رضا کے لیے کیا ہے، اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔ اس دعا کی حیثیت ہماری دوسری دعاؤں سے مختلف نہیں ہے اور ہماری سب دعائیں اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ مختار ہے کہ جس دعا کو چاہے قبول فرمائے اور جسے چاہے قبول نہ فرمائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کے لیے ایصال ثواب کریں جو اللہ کی نگاہ میں مومن ہی نہ ہو، یا سخت مجرم ہو اور اللہ تعالیٰ اس کسی ثواب کا مستحق نہ سمجھے۔
ایصال ثواب کرنے والے نے اگر واقعی کوئی نیک عمل کیا ہو تو اس کا اجر بہرحال ضائع نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اگر متوفی کو ثواب نہ پہنچائے گا تو نیکی کرنے والے کے حساب میں اس کا اجر ضرور شامل کرے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کسی شخص کے نام منی آرڈر بھیجیں۔ اگر وہ منی آرڈر اس کو نہ دیا گیا تو لازماً آپ کی رقم آپ کو واپس ملے گی یا مثلاً آپ جیل میں کسی قیدی کو کھانا بھیجیں۔ اگر حکومت یہ مناسب نہیں سمجھتی کہ ایک ظالم مجرم کو ایسے نفیس کھانے کھلائے جائیں تو وہ آپ کا بھیجا ہوا کھانا پھینک نہیں دے گی، بلکہ آپ کو واپس کردے گی۔
(۲) ایصال ثواب ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے، خواہ متوفی سے کوئی قرابت ہو یا نہ ہو اور خواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دعا ہر شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصال ثواب بھی ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ فروری ۱۹۶۱ء)