احادیث کی تاویل کا صحیح طریقہ
سوال: ایک مضمون میں ذیل کی حدیث نقل ہوئی ہے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کیا تو تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ اٹھالے گا اور ایک دوسری قوم لے آئے گا جو گناہ کرے گی اور مغفرت چاہے گی۔ پس اللہ اس کو بخش دے گا۔‘‘
ناچیز کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث شاید موضوع ہوگی جو بد اعمالیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنا لی گئی ہوگی۔ بظاہر اس میں جتنی اہمیت استغفار کی ہے، اس سے کہیں زیادہ گناہ کی تحریص معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہے؟
جواب: کسی حدیث کو رد کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کے مضمون پر تھوڑا سا غور کرے اور اگر بات سمجھ میں نہ آئے یا اس کا کوئی غلط مفہوم ذہن میں پیدا ہوجائے تو بے تکلف یہ فیصلہ کردے کہ حدیث گھڑی ہوئی ہے اور ایک نظریہ یہ بھی ساتھ ساتھ قائم کر لے کہ فلاں فلاں وجو سے یہ گھڑی گئی ہوگی۔ اس طریقے سے احادیث پرکھی جانے لگیں تو نہ معلوم کتنی حدیثوں کو دریا برد کر ڈالا جائے گا۔ حدیثوں کو پرکھنے کے لیے علم حدیث سے گہری واقفیت ضروری ہے اور اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی میں بات کے مغز کو پہنچنے کی عمدہ صلاحیت ہو۔ اس طرح جب روایت اور درایت میں صحیح توازن قائم ہوجائے تب انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ احادیث کو جانچ کر ان کی صحت و سقم اور ان کے مضمون کی معنوی حیثیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔
جس حدیث کے متعلق آپ نے تنقید کی ہے وہ مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے منقول ہوئی ہے اور روایت کے اعتبار سے اس پر کوئی وزنی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ رہا اس کا مضمون تو اس موضوع سے متعلق جو دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سب کو ملا کر اسے پڑھا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آدمی کو جان بوجھ کر گناہ کرنا چاہیے اور پھر توبہ کرلینی چاہیے بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کے انسان جب تک انسان ہے، بالکل بے خطا اور بے گناہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اصل خوبی یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ سر زد ہی نہ ہو، بلکہ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب بھی اس سے گناہ سر زد ہوجائے، وہ نادم ہو اور اپنے خدا سے معافی مانگے۔ اس مضون کو ذہن نشین کرنے کے لیے حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ کو بے گناہ مخلوق ہی پیدا کرنی ہوتی تو انسانوں کی بجائے کوئی اور مخلوق پیدا کرتا۔ انسان کو تو خدا نے نیکی اور گناہ دونوں صلاحیت و استعداد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نوعیت کی مخلوق سے بے گناہی مطلوب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو بڑے سے بڑا مقام یہی ہوسکتا ہے کہ بتقاضائے بشریت جب بھی اس سے قصور سر زد ہو، اس پر اصرار نہ کرے بلکہ نادم ہو کر استغفار کرے۔
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۶۲ء)