تاویل قرآن کے صحیح اصول
(امریکہ کی ٹفٹس یونی ورسٹی (Tufts University) کے ایک پروفیسر نے چند سوالات اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ ان کا مفصل جواب دے کر ان مشکلات کو رفع کیا جائے جو انہیں فہم القرآن کے معاملہ میں پیش آرہی ہیں۔ یہ سوال نامہ اور اس کا جواب درج ہے)
سوال: اسلام کو سمجھنے کی کوشش میں جس مسئلے کو میں نے سب سے زیادہ پریشان کن پایا، وہ قرآن کی تاویل کا مسئلہ ہے۔ ذیل کے سوالات میں نے اس غرض کے لیے مرتب کیے ہیں کہ اس معاملے میں میرے ذہن کی الجھن کو دور کیا جائے۔ میں نے ایک مخصوص مسئلے کو اپنے سوالات کا محور صرف اس لیے بنایا ہے تاکہ تاویل قرآن کو جاننے کے ساتھ یہ بھی معلوم کر سکوں کہ مخصوص مسائل پر ان اصولوں کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘ (بقرۃ آیت ۲۵۶) اس پر حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
(۱) کیا ایران میں بہائیوں کا استیصال اس آیت کے خلاف نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں ؟ کیا پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگامے اس آیت کے خلاف نہ تھے؟ اگر نہ تھے تو کیوں؟
(۲) اکراہ کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ لفظ قہر (Coercion) سے زیادہ وسیع نہیں ہے؟ اگر موجودہ زمانے کی ایک ریاست میں مسلمانوں کو ٹیکس میں رعایات ملیں یا شہریت کے زیادہ فوائد حاصل ہوں تو کیا یہ بھی غیر مسلموں کے حق میں اکراہ نہ ہوگا؟ یقیناً ایک ایسا تاجر جو تھوڑے منافع پر کام کر رہا ہو، اپنی روزی محفوظ رکھنے کے لیے ایسے حالات میں اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
(۳) کیا یہاں لفظ ’’دین‘‘ اپنے عام وسیع تر معنوں کی بہ نسبت محدود تر معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
(۴) اس آیت کا ایک مفسر کہتا ہے کہ ’’مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ جب ان کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو انہیں اس اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دین میں جبر سے کام نہ لیا جائے‘‘۔ یہ مفسر اس آیت کے حکم کو صرف اس حالت کے لیے کیوں مخصوص کرتا ہے جب کہ مسلمان اقتدار رکھتے ہوں؟ کیا آپ اس تاویل سے اتفاق کرتے ہیں؟
(۵) اگر آپ کو بھی اس سے اتفاق ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک جبر سے کام لے سکتے ہیں جب تک انہیں اقتدار حاصل نہ ہوجائے؟
(۶) اگر ایک اسلامی ریاست میں ایک مرتد واجب القتل ہے تو پھر کیا یہ دین میں جبر کا استعمال نہیں ہے؟
قرآن مجید کہتا ہے ’’وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔ اس کی کچھ آیات محکم ہیں اور وہی کتاب کی اصل و بنیاد ہیں۔ دوسری متشابہات ہیں۔ سو جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ اس کتاب کی ان آیت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کو معنی پہنائیں‘‘۔ (آل عمران۔ آیت ۷)
(۷) کیا یہ صحیح ہے کہ آیات محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی صاف اور صریح ہیں؟ اور اس بنا پر ان کی تاویل و تعبیر کی حاجت نہیں ہے؟ اگر یہی بات ہے تو کیا یہ فرض کرلیا جائے گا کہ ان کے معنی سب لوگوں پر واضح ہیں؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور ایک ہی درجے کا تعقل رکھتے ہیں؟
(۸) کیا آیت لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن محکم ہے؟ اگر نہیں ہے تو چند ایسی آیتوں کی نشاندہی کیجیے جو قطعی طور پر صریح الدلالت ہیں؟
(۹) سورۃ نساء کی تیسری آیت جس میں تعددِ ازواج کی اجازت مذکور ہے، محکم ہے یا متشابہ؟ اگر وہ محکم ہے تو اس کے معنی میں اتنا اختلاف کیوں ہے اور اس کی اتنی مختلف تاویلیں کیوں کی جاتی ہیں؟ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس کے معنی بالکل صاف ہیں تو کیا اس کی کوئی ضرورت ہے کہ وہ حدیث کی طرف رجوع کرے؟ (واضح رہے کہ میں بجائے خود تعددِ ازواج کے مسئلے میں دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ یہاں زیر بحث قرآن کی تاویل کا مسئلہ ہے)
(۱۰) جب قرآن مجید کی مختلف آیات ایک ہی موضوع سے متعلق ہوں اور ان کا مضمون ایک دوسرے سے مختلف پایا جائے تو ایک آدمی کس طرح فیصلہ کرے کہ ان میں سے کون سی آیت کس کی ناسخ ہے؟ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایک آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو کیا یہ بات اسے ناسخ قرار دینے کے لیے کافی ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو کیا قرآن مجید کو تاریخ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کرنا مفید نہ ہوگا؟
(۱۱) کیا ایک اسلامی ریاست میں افراد کو یہ حق ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک آیات محکمات کے جو معنی خود سمجھتا ہو، ان کی پیروی کرے؟ کیا اس کا یہ حق ہوگا کہ ان آیات کی کسی ایسی تعبیر کو ماننے سے انکار کردے جو اس کی ذاتی تعبیر سے مختلف ہو۔ خواہ وہ حکومت کے مقرر کیے ہوئے کسی کمیشن ہی نے کی ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۷ کا فائدہ کیا ہے؟
(۱۲)بائبل کی کتاب، رسولوں کے اعمال، (باب ۱۰) میں ہے کہ تمام چار پاؤں والے جانور حلال ہیں۔ بخلاف اس کے بائبل کا عہد نامہ قدیم اور قرآن، دونوں بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ سب کتابیں خدا کی طرف سے بذریعہ وحی نازل ہوئی ہیں تو مسلمان ان کے اس اختلاف کی کیا توجیہ کرتے ہیں؟ (واضح رہے کہ مجھے کسی خاص قسم کے گوشت کے کھانے یا نہ کھانے سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ میں اس تضاد کو رفع کرانا چاہتا ہوں جو کتب آسمانی میں پایا جاتا ہے یا مجھے محسوس ہوتا ہے)
(۱۳) تبلیغ کے لیے اسلام کے جوش کو کس طرح حق بجانب ٹھہرایا جاسکتا ہے جب کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ مختلف امتوں کے لیے خدا نے مختلف طریقے مقرر کیے ہیں اور وہ سب طریقے خدا ہی کے ہیں؟
(۱۴) کیا عالم طبیعی کے متعلق انسان کا روز افزوں علم (بذریعہ طبیعات، کیمیا، ہیئت وغیرہ) انسان کو قرآن زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے قابل بنا دیتا ہے؟
قرآن مجید جگہ جگہ یہودی اور مسیحی کتب کو الہامی کتابوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مگر بائبل کے بہت سے علماء اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کتابیں محض تاریخی دستاویز ہیں جن میں سے بعض کو ایک سے زیادہ مصنفوں نے تیار کیا ہے اور ان کے الہامی ہونے کی شہادت کم ہی ملتی ہے۔اب کیا قرآن ان کتابوں کے معاملے میں وحی و الہام کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کرتا ہے؟ کیا بائبل کے علما کی رائے غلط ہے؟ یا ہم یہ فرض کریں کہ محمد ﷺ کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی تغیر ہوگیا ہے؟‘‘
جواب:
قرآن کی تاویل کا صحیح طریقہ:
سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ قرآ ن مجید کی تاویل و تعبیر کا صحیح طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں، پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ اور ترکیب (Contstruction) پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق (Context) میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی جو دوسری آیات قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہوں، ان کو جمع کرکے دیکھیں کہ زیر بحث آیت کی ممکن تعبیرات میں سے کون سی تعبیر ان کے خلاف پڑتی ہے (اور یہ ظاہر ہے کہ ایک قائل کا کوئی قول اگر دو یا زائد تعبیرات کا متحمل ہو تو اس کی وہی تعبیر معتبر سمجھی جائے گی جو اسی مضمون کے متعلق اس کی دوسری تصریحات سے متابقت رکھتی ہو )۔ اس حد تک قرآن کا مطلب خود قرآن سے معلوم کرنے کی کوشش جب آپ کرلیں تو اس کے بعد یہ بھی دیکھیے کہ جو شخص دراصل قرآن کو پیش کرنے والا تھا، اس کے قول اور عمل سے قرآن کی زیر بحث آیت کے مفہوم پر کیا روشنی پڑتی ہے، اور جو لوگ اس کے قریب ترین زمانے میں اس کے پیرو تھے، وہ اس آیت کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔
آیت ِلَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن … کے معنی:
اس اصولی توضیح کے بعد اب میں اس آیت کو لیتا ہوں جسے آ پ نے مثال کے طور پر لیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ عربی زبان کے لحاظ سے ’’دین میں‘‘ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک ’’دین قبول کرنے یا اختیار کرنے کے معاملے میں‘‘ اور دوسرے ’’دین کے نظام میں ‘‘ ان دو تعبیروں میں سے کون سی تعبیر قابل ترجیح ہے؟ اس کا فیصلہ محض اس آیت کے الفاظ سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے آپ کو سیاق و سباق کی طرف رجوح کرنا پڑے گا۔
جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کا ایک واضح تصور پیش کیا گیا ہے، جو مختلف اقسام کی شرک میں مبتلا رہنے والی تمام موجود الوقت مذہبی جماعتوں کے تصور الٰہ سے مختلف ہے اور اس دین کا بنیادی عقیدہ ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں راہ راست گمراہی سے ممیز ہوچکی ہے، اب جو کوئی طاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لائے، اس نے ایک ایسی رسّی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سننے، جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لائیں، اللہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور جو لوگ کفر کریں، ان کے سرپرست طاغوت ہیں۔ وہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں لے جاتے ہیں‘‘… اس سیاق و سباق میں (دین میں کوئی جبر نہیں) فقرہ صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ اللہ کے متعلق مذکورہ بالا عقیدہ کسی سے زبردستی نہیں منوایا جائے گا۔ صحیح عقیدے کو غلط عقائد کے مقابلے میں پوری وضاحت سے پیش کردیا گیا ہے۔ اب جو کوئی غلط عقائد کو چھوڑ کر اللہ کو اس طرح مان لے گا جس طرح بتایا گیا ہے، وہ خود فائدہ اٹھائے گا، اور جو ماننے سے انکار کرے وہ آپ ہی نقصان میں رہے گا۔
اس کے بعد آپ پورے قرآن پر ایک نگاہ ڈالیے۔ یہاں آپ دیکھیں گے کہ متعدد جرائم کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں، بہت سی اخلاقی خرابیوں کو دبانے کا حکم دیا گیا ہے، بہت سی چیزوں کو ممنوع ٹھہرایا گیا ہے، متعدد چیزوں کو فرض ولازم قرار دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسول اور اصحاب امر کی اطاعت کریں۔ ان سب احکام کو نافذ(Enforce) کرنے کے لیے بہرحال کسی نہ کسی طرح کی قوت جابرہ(Coercive Power) کا استعمال ناگزیر ہے، خواہ وہ ریاست کی طاقت ہو یا سوسائٹی کے اخلاقی دباؤ کی طاقت۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘ کہنے سے قرآن کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں جابرانہ قوت کے استعمال کا کوئی مقام ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین اسلام کو قبول کرنے کے معاملہ میں جبر کا کوئی کام نہیں، جو قبول کرنا چاہیے، وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے اور جو قبول نہ کرنا چاہے اسے کوئی زبردستی ایمان لانے پر مجبور نہ کرے گا۔
اس مضمون پر مزید روشنی رسول اللہﷺ اور آپ سے براہ راست تربیت پانے والے اصحاب کے طرز عمل سے پڑتی ہے۔ انہوں نے کبھی کسی غیر مسلم کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا، مگر جو لوگ اسلام قبول کرکے مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگئے، ان کو اسلامی احکام کی تعمیل پر ضرور مجبور کیا اور اس غرض کے لیے اخلاقی و معاشرتی دباؤ ہی سے نہیں، حکومت کی طاقت سے بھی کام لیا۔ ان کے زمانے میں بکثرت غیر مسلم اسلامی حکومت کی رعایا بنے۔ انہیں عقیدے اور عبادت اور مذہبی رسوم ادا کرنے کی پوری آزادی دی گئی، اور ان کے شخصی قانون(Personal Law)کو بحال رکھا گیا، مگر اسلامی حکومت کا اجتماعی قانون (Public Law) ان پر بھی نافذ کیا گیا جس طرح وہ مسلمانوں پر نافذ کیا جاتا تھا۔
یہاں تک میں نے آیت کے اصل مفہوم کی تشریح کی ہے۔ اب میں آپ کے سوالات کے نمبر۱ تا نمبر ۶ کا الگ الگ جواب عرض کروں گا۔
۱۔ قادیانیوں کا معاملہ:
ایران میں بہائیوں کے ساتھ جو معاملے ہوا، اس کے متعلق میرے پاس پوری معلومات نہیں ہیں، اس لیے میں اس پر کوئی اظہار رائے نہیں کرسکتا۔ لیکن پاکستان میں قادیانیوں کے معاملے پر آپ کا سوال سخت غلط فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ قادیانیوں کو ملک سے نکال دیا جائے، یا مٹا دیا جائے یا زبردستی قادیانیت چھوڑنے پر مجبور کیا جائے یا حقوق شہریت سے محروم کردیا جائے۔ مطالبہ صرف یہ تھا اور ہے کہ جب وہ بنیادی عقیدے اور مذہبی اعمال اور معاشرتی نظام میں مسلمانوں سے خود الگ ہوچکے ہیں تو اس علیحدگی کو آئینی طور پر تسلیم کرلیا جائے اور انہیں بغیر کسی معقول وجہ کے مسلم سوسائٹی کا ایک حصہ قرار نہ دیا جائے۔ آپ خود غور کریں کہ یہ مطالبہ آخرکس منطق کی رو سے قرآن مجید کی زیر بحث آیت کے خلاف پڑتا ہے؟ کیا دین میں جبر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس گروہ کو تمام مسلمان دین سے خارج سمجھتے ہیں اور جو خود بھی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان سے عملاً الگ ہوچکا ہے، اسے دین میں داخل کرنے پر مجبور کرنا چاہیے؟ رہے وہ فسادات جو مارچ ۱۹۵۳ء میں ہوئے تھے، ان کو قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں (Anti Qadiani Disturbance) کا نام بالکل غلط دیا گیا ہے، جس سے نا واقف حال لوگوں کو خواہ مخواہ یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عام مسلمان شاید قادیانیوں کو قتل و غارت کرنے پر تل گئے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ فسادات حکومت اور عوام کے درمیان اس کشمکش کی وجہ سے برپا ہوئے تھے کہ ایک طرف عوام قادیانیوں کے بارے میں مذکورہ بالا مطالبہ تسلیم کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری طرف حکومت ان کے اس ایجی ٹیشن کو طاقت سے دبا دینا چاہتی تھی۔ پس تصادم دراصل حکومت اور عوام کے درمیان ہوا تھا نہ کہ قادیانیوں اور عوام کے درمیان۔ قادیانیوں کی جان و مال پر عوام نے صرف اس وقت حملہ کیا جب انہیں یقین ہوگیا( اور اس پر اچھے خاصے وزنی دلائل موجود تھے) کہ فسادات کے دوران میں پولیس اور فوج کی وردیاں پہن کر بعض قادیانی مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے تھے۔
(ملاحظہ ہو تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ، صفحہ 156)
۲۔ مسلمانوں کے امتیازی حقوق کا معاملہ:
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ٹیکس عائد کرنے کے معاملے میں کوئی امتیاز اسلامی قانون کے اندر نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ابتدائی اسلامی دور میں عملاً تو غیر مسلم تاجروں سے مسلمان تاجروں بہ نسبت زیادہ تجارتی محصول لیا جاتا تھا، مگر دراصل وہ کسی مستقل شرعی حکم کی بنا پر نہ تھا، اور نہ اس سے مقصود غیر مسلم تاجروں کو اسلام لانے پر مجبور یا آمادہ کرنا تھا، بلکہ وہ ایک وقتی تدبیر تھی جو مسلمانوں کو تجارت کی طرف مائل کرنے کے لیے اختیار کی گئی تھی، کیوں کہ اس وقت مسلمان اکثر و بیشتر فوجی اور سول خدمات میں لگ گئے تھے اور نو مفتوح ممالک کی پوری معاشی زندگی (تجارت، صنعت و حرفت، زراعت وغیرہ) بالکل غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھی۔ اس پر اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ اس ترجیح کے نتیجہ میں قلیل منافع پر کام کرنے والا تاجر(Marginal Businessman) اپنی روزی برقرار رکھنے کے لیے مسلمان ہونے پر مجبور ہوسکتا تھا، تو میں کہوں گا کہ آپ کا یہ قیاس صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ مسلمان ہوتے ہی اس پر زکوٰۃ عائد ہوجاتی جس کا بار جزیے اور محصول تجارت کے مجموعے سے زیادہ تھا۔ زکوٰۃ اس کے تمام تجارتی سرمائے اور گھر کے زیورات اور جمع شدہ رقم پر ڈھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے لگتی۔ بخلاف اس کے بڑے سے بڑے مال دار غیر مسلم کو بھی ۴۸ درہم (تقریباً ۳ ڈالرز) سالانہ سے زیادہ جزیہ نہ دینا پڑتا تھا اور محصول تجارت میں اس کو مسلمان کی بہ نسبت حد سے حد صرف ۵۰ فیصد زیادہ دینا ہوتا تھا۔
۳۔ اس سوال کا جواب میری ابتدائی تشریح میں گزر چکا ہے۔
۴،۵۔ اقتدار میں جبر:
جس مفسر کے قول کا حوالہ آپ نے دیا ہے، اس کا منشا یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ جب تک مسلمان برسر اقتدار نہ ہوں، وہ زبردستی اپنے دین میں لوگوں کو داخل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں البتہ جب وہ اقتدار حاصل کرلیں تو جبر کا استعمال چھوڑ دیں، بلکہ اس نے آیت کی یہ تفسیر غالباً اس مفروضے پر کی ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی شخص یا گروہ کو کسی دوسرے شخص یا گروہ پر کسی نہ کسی طرح کا جابرانہ اثر و اقتدار حاصل ہو، ورنہ ظاہر ہے کہ ایک غیر مقتدر آدمی سے یہ کہنا بے معنی ہے کہ تو جبر نہ کر۔ مجھے معاف کیجیے اگر میں یہ کہوں گا کہ آپ نے اس مفسر کے قول کا جو الٹا مطلب لیا ہے، وہ منطق کے لحاظ سے بھی درست نہیں ہے۔
۶۔ مرتد کی سزا کا مسئلہ:
مرتد کے بارے میں اسلام کا قانون بظاہر اس آیت کے خلاف محسوس ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ انہی کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہیں داخل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اس کے برعکس مرتدکے بارے میں اسلامی قانون کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اسلام میں داخل ہو کر پھر اس سے نکلنا چاہیں۔ ان لوگوں پر جبر کے استعمال کی اصل غرض یہ نہیں ہے کہ ان کو دین میں رکھا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی کو، جو ریاست کی بنیاد ہے، انتشار(Disintegration) سے بچایا جائے۔ اسلامی قانون جس طرح ایک مسلمان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسلامی ریاست کے اندر رہتے ہوئے اعلانیہ اسلام کو چھوڑ دے، اسی طرح وہ ایک غیر مسلم ذمی کو بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ریاست کی حدود میں رہتے ہوئے اس کی وفاداری سے اعلانیہ انکار کردے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ کوئی ریاست بھی اپنے اجزائے ترکیبی کے انتشار کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس معاملہ میں سب ہی ’’داخل نہ ہونے والے‘‘ اور ’’داخل ہو کر نکل جانے والے‘‘ کے درمیان فرق کرتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ایک سا معاملہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ کیا امریکی شہریت یا برطانوی قومیت اختیار نہ کرنے والے، اور اختیار کرکے چھوڑ دینے والے کی پوزیشن ایک ہے؟ کیا امریکی وفاق میں شامل نہ ہونے والی ریاست اور شامل ہو کرنکل جانے والی ریاست کے ساتھ آپ ایک ہی معاملہ اختیار کریں گے؟
محکمات اور متشابہات:
اب دوسری آیت کو لیجیے جو آپ نے سورۃ آل عمران سے نقل کی ہے۔ اس کے متعلق جو سوالات آپ نے کیے ہیں، ان کا جواب طلب کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ان ’’آیات محکمات‘‘ اور آیات متشابہات‘‘ کا مفہوم اور ان کا باہمی فرق اچھی طرح سمجھ لیں۔ آیات متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں انسانی حواس سے ماورا حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حقیقتیں چوں کہ براہ راست انسان کے تجربے اور مشاہدے میں نہیں آئی ہیں، اور اس بنا پر انسانی زبان میں ان کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو انسان نے دراصل محسوس اشیاء کے لیے وضع کیے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے لیے زندگی، بینائی، سماعت، گویائی وغیرہ الفاظ کا استعمال، یا اس کے لیے عرش اور کرسی ثابت کرنا اور یہ کہ وہ آسمان میں ہے، یا یہ کہنا کہ وہ محبت کرتا ہے، یا غضب ناک ہوتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ اور اسالیب بیان حقیقت کا ایک مجمل کا پورا پورا تفصیلی تصور حاصل کرنا، اور ان ماورائے حواس حقائق کی پوری پوری کیفیت اور نوعیت (Nature) معلوم کرلینا بہرحال ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید ان کی تاویل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو غلط ذہنیت کا شکار قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ الفاظ اس کے متحمل ہیں ہی نہیں کہ انسان ان کے معنی متعین کرسکے یا ان کی کوئی ایسی تعبیر کرسکے جس سے اصل حقیقت اس کے ادراک کی گرفت میں آجائے۔ اس کے برعکس آیات محکمات وہ آیات ہیں جو انسان اور کائنات سے تعلق رکھنے والے محسوس حقائق اور تجربہ و مشاہدہ میں آنے والے مسائل و معاملات سے بحث کرتی ہیں۔ یا انسان کو وہ احکام اور ہدایات دیتی ہیں جن پر اسے عمل کرنا ہے۔ ان آیات میں چوں کہ وہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس لیے انسان ان کی تاویل و تعبیر کرسکتا ہے۔ ان کے معنی متعین کرنے کی کوشش ممکن بھی ہے اورجائز بھی، بلکہ وہ شریعت میں مطلوب ہے کیوں کہ قرآن مجید کے منشا کو سمجھنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے، البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ کوشش نیک نیتی کے ساتھ ہو، رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ہو، اور ان معقول طریقوں کے مطابق ہو جو دنیا میں کسی کلام کا مفہوم و مراد معلوم کرنے کے لیے (نہ کہ اس کی اپنی خواہشات اور اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے) استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس تشریح کے بعد میں آپ کے بقیہ سوالات کا سلسلہ وار جواب دوں گا۔
۷۔اس سوال کا جواب اوپر کی تشریح کے بعد غیر ضروری ہوجاتا ہے۔ ’’آیات محکمات‘‘ کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ وہ ایسی آیات ہیں ’’جن کی تعبیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ اس کے برعکس قرآن مجید تو آیات متشابہات کی تاویل کرنے سے منع کرکے محکم آیات کی طرف انسان کی توجہ اسی غرض کے لیے پھیرتا ہے کہ غور و فکر اور بحث و تحقیق اور تاویل و تعبیر کی کوششوں کا صحیح رخ یہ آیات ہیں، نہ کہ آیات متشابہات۔
۸۔ آیت لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن یقیناً آیات محکمات میں سے ہے۔اس لیے کہ ’’دین‘‘ اور ’’اکراہ‘‘ اور ’’دین میں اکراہ نہ ہونا‘‘۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کے معنی ہم لغت سے، قواعد زبان سے، سیاق و سباق سے، قرآن کے دوسرے بیانات سے اور سنت، اجماع اور قیاس کی مدد سے متعین کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کی وہ تمام آیات محکم ہیں جن میں انسان سے کسی چیز کے ماننے یا کسی چیز کا انکار کرنے، یا کسی چیز پر عمل کرنے یا کسی چیز کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ نیز وہ سب آیات محکم ہیں جو محسوس و مشہود اشیاء کا ذکر کرتی ہیں یا ان امور و مسائل سے بچث کرتی ہیں جو انسان کے تجربے میں آتے ہیں۔
۹۔ تعداد ازواج کا مسئلہ:
اوپر کی تشریح کے بعد یہ بات آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳ متشابہ نہیں بلکہ محکم ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ ’’اگر یہ محکم ہے تو اس کی تعبیر میں اتنا اختلاف کیوں ہے‘‘۔ متعدد غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کی پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ ’’ جو آیت محکم ہو، اس میں تعبیرات کا اختلاف نہ ہونا چاہیے۔‘‘ اور یہ غلط فہمی آپ کو اس لیے ہوئی ہے کہ آپ محکم آیت کے معنی یہ سمجھے ہیں کہ وہ سرے سے محتاج تعبیر ہی نہیں ہوتی۔ آپ کی دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ اس آیت کی تعبیر میں کچھ بہت اختلافات رونما ہوئے ہیں اور بڑے وسیع اختلافات ہیں۔ حالاں کہ علمائے اسلام کے درمیان ۱۲ سو برس تک اس آیت کا یہ مفہوم و متفق علیہ رہا ہے کہ یہ ایک مرد کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت دیتی ہے، اس کے لیے بیک وقت چار کی تعداد مقرر کرتی ہے۔ اس کے لیے عدل کی شرط لگاتی ہے اور عدل سے مراد برتاؤ اور حقوق میں عدل ہے، نہ کہ دلی لگائی میں برابری۔ اب رہیں وہ تعبیرات جو انیسویں صدی کے آخری دور سے بعض مسلمانوں نے کرنی شروع کردی ہیں، اور جن کی بنا پر آپ کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی ہے کہ اس آیت کی تعبیر میں وسیع اختلافات رونما ہوگئے ہیں، تو میں یہ صاف کہوں گا کہ در حقیقت وہ تعبیرات نہیں بلکہ معنوی تحریفات ہیں جن کو قرآن کی جائز تفسیر کی حدود میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔ یہ تعبیرات ایسے لوگوں نے کی ہیں جو قرآن سے نہیں بلکہ آپ لوگوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور قرآن کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ضرور وہ اسی بات کو حق کہے جسے آپ لوگ حق کہتے ہیں ۔اسی طرح کسی چیز کو معنی پہنانے کی کوشش میرے نزدیک منافقت اور بے ایمانی ہے۔ میں اگر ایمانداری کے ساتھ یہ سمجھتا کہ اس معاملہ میں یا کسی معاملہ میں بھی قرآن کا نقطہ نظر غلط اور اہل مغرب کا نقطہ نظر صحیح ہے تو صاف صاف قرآن کا انکار کرکے آپ حضرات کے نظریے پر ایمان لانے کا اعلان کردیتا، اور یہ کہنے میں ہر گز تامل نہ کرتا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ یہی رویہ ہر مخلص اور راست باز آدمی کا ہونا چاہیے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ لوگ ہمارے اندر منافقین کی ہمت افزائی کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ زندگی کے معاملات میں آپ کے ہم نوا ہیں۔ آپ کو ان کی ہم نوائی اچھی معلوم ہوتی ہے اور وہ منافقت بری نہیں معلوم ہوتی جو اس کے پیچھے کار فرما ہے۔
قرآن کی تاویل میں حدیث کی اہمیت:
آپ نے اس سوال کے ضمن میں ایک اور سوال یہ چھیڑ دیا ہے کہ اگر ایک شخص کسی آیت کا مطلب صاف محسوس کر رہا ہو تو اسے حدیث کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ایک شخص خواہ قرآن کو محمد رسول اللہ ﷺ کی تصنیف سمجھتا ہو یا یہ سمجھتا ہو کہ یہ خدا کی کتاب ہے اور محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں، دونوں صورتوں میں اس کا یہ دعویٰ کرنا غلط ہوگا کہ اسے قرآن کو سمجھنے کے لیے محمد کی قولی و عملی تشریح سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اگر وہ اسے آنحضرت ﷺ کی تصنیف سمجھتا ہے تو اسے ماننا ہوگا کہ مصنف نے اس کی جو تشریح بھی کی ہو، وہی اس کا اصل مدعا ہے۔ اور اگر وہ اسے خدا کا کلام مانتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ خدا ہی نے اسے اس کی تعلیم دینے کے لیے محمد ﷺ کو مامور کیا تھا، تب بھی اسے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا کے کلام کا جو مفہوم محمد ﷺ نے سمجھا تھا، وہی اس کا مستند مفہوم ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ کوئی حدیث جو محمد ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہو، صحیح ہے یا نہیں اور اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے دلائل کیا ہیں، مگر بجائے خود یہ بات ناقابل انکار ہے کہ قرآن کو سمجھنے میں ہم حدیث سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔
۱۰۔ قرآن کی نزولی ترتیب غیر ضروری ہے:
اگر ایک ہی مسئلے میں قرآن کے اندر دو مختلف حکم پائے جاتے ہوں تو بعد کا حکم پہلے کا ناسخ مانا جائے گا۔ مگر اس کے لیے سارے قرآن کو تاریخ نزول کے اعتبار سے مرتب کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ موجودہ ترتیب ہی میں مستند روایات کی ذریعہ ہم کو معلوم ہوسکتا ہے کہ کون سا حکم پہلے نازل ہوا تھا اور کون سا بعد میں آیا۔
۱۱۔ انفرادی تاویل کا حق:
ایک اسلامی ریاست میں ہر صاحب علم قرآن کی تاویل کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے، لیکن اس کی تاویل سب مسلمانوں کے لیے قانون نہیں ہوسکتی۔ قانون وہی تاویل ہوگی جو اہل علم کے اتفاق یا کثرت رائے سے اختیار کی جائے، یا جس کے مطابق ایک عدالت مجاز فیصلہ دے۔ انفرادی معاملات میں انفرادی تاویل بلا شبہ ہر صاحب علم کا حق ہے مگر اجتماعی معاملات میں انفرادی تاویل کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟
۱۲۔ قرآن کس انجیل کی تصدیق کرتا ہے؟
’’نئے عہد نامے(New Testament) کی کتاب اعمال (Acts) تو درکنار، چاروں انجیلیں(Gopels) بھی الہامی کتابیں نہیں ہیں، نہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ البتہ قرآن اس انجیل مقدس کی تصدیق کرتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ اب آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ وہ انجیل کہاں ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس انجیل کے منتشر اجزاء زبانی روایات کے ذریعے سے نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں کے مصنفین کو پہنچے تھے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں مختلف مقامات پر انہیں درج کیا ہے۔ ان کتابوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو تقریریں اور امثال ملتی ہیں، وہ اسی انجیل کے متفرق اجزاء ہیں اور ان میں آپ مشکل ہی سے کوئی بات ایسی پائیں گے جسے قرآن مجید کے خلاف کہا جاسکے۔
۱۳۔ تبلیغ اسلام کے لیے وجہ جواز:
آپ نے قرآن کی اس آیت کا حوالہ نہیں دیا ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ آیت سورہ حج کی آیت نمبر ۶۷ ہے تو اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اللہ نے ایک طریقہ مقرر کیا تھا، اور اس زمانے میں وہی معتبر تھا۔ اسی طرح اب اس دور کے لوگوں کے لیے اللہ نے محمد ﷺ کے ذریعہ سے ایک طریقہ مقرر کیا ہے، اور اس دور میں یہی معتبر ہے۔ یہ ہے اس بات کی وجہ جواز کہ مسلمان اہل کتاب سمیت تمام غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔
۱۴۔ قرآن فہمی میں علوم طبیعی کی واقفیت کا مقام:
اس میں شک نہیں کہ انسان کا علم دنیا اور اس کے حقائق کے متعلق جتنا زیادہ بڑھے گا، اس کو قرآن میں اتنی ہی زیادہ بصیرت حاصل ہوگی۔ لیکن اس سے نہ تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ محمد ﷺ اور ان کے براہ راست شاگردوں سے بھی زیادہ قرآن پاک کو سمجھنے لگے گا، اور نہ ہی یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جو شخص بھی علم ہیئت، طبیعات اور کیمیا وغیرہ کے ذریعہ سے دنیا کا خوب علم حاصل کرلے، وہ لازماً قرآن کو بہتر سمجھنے والا قرار پائے۔ قرآن کے صحیح فہم کے لیے ہر چیز سے مقدم یہ شرط ہے کہ آدمی اس کو خدا کی کتاب مانے، اس کوسر چشمہ ہدایت تسلیم کرے، ان ضروری علوم سے واقفیت ہو جو قرآن کو سمجھنے کے لیے درکار ہیں، اور پھر اپنا کافی وقت قرآن اور اسلامی نظام فکر و حیات پر غور و فکر کرنے میں صرف کرے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اس پیغمبر سے بھی بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا ہے، جسے خود خدا نے اپنی کتاب کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیا تھا (یا آپ لوگوں کے نزدیک خود اس کتاب کا مصنف تھا)۔
۱۵۔ قرآن کن کتب مقدسہ کی تصدیق کرتا ہے؟
قرآن مجید جن کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، وہ پرانا ’’عہدنامہ‘‘ اور ’’نیا عہد نامہ‘‘ نہیں ہیں بلکہ تورات، زبور اور انجیل مقدس ہیں۔ تورات کو یہودیوں نے ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے نہیں رکھا بلکہ اس کے مختلف اجزاء پرانے عہد نامہ کی پہلی پانچ کتابوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے اندر شامل(Incorporate) کردیے۔ آپ ان کتابوں میں سے اس تورات کے اجزاء کو اس علامت کی مدد سے چھانٹ سکتے ہیں کہ جہاں جہاں کوئی عبارت اس طرح شروع ہوتی ہے کہ خداوند نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہا، یا خدا نے یہ حکم دیا، یا موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطاب کرکے یہ تقریر کی، وہاں غالباً اس تورات کا کوئی جزو نقل کیا گیا ہے۔ یہی صورت زبور کی بھی ہے کہ پرانے عہد نامے کی پوری کتاب ’’زبور‘‘ (Psalms) نہیں بلکہ صرف زبور داؤد (Psalms Of David) کی قرآن مجید نے تصدیق کی ہے اور اس کے اجزاء کتاب زبور میں شامل پائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ انجیل مقدس کا بھی ہے کہ اس کو پیروان مسیح علیہ السلام نے ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے محفوظ نہیں رکھا بلکہ مسیح علیہ السلام کے سوانح نگاروں (متی، مرقس، لوقا، یوحنا وغیرہ) نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کے وہ حصے درج کیے ہیں جو ان کو زبانی روایات کے نتیجے میں پہنچے تھے، اور انہیں اس علامت کی مدد سے چھانٹا جاسکتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے یوں کہا، یا مسیح علیہ السلام نے یہ تمثیل دی، یا لوگوں کو خطاب کرکے یہ وعظ کہا۔ آپ میری اس نشاندہی پر پرانے اور نئے عہد نامے میں تورات، زبور اور انجیل کے ان اجزاء کو چھانٹ لیں اور پھر قرآن مجید سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھیں۔ آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ ان کی تعلیم اور قرآن مجید کی تعلیم میں بہت کم اختلاف پایا جاتا ہے، اور جو تھوڑا سا اختلاف ہے، اس کی بھی یہ معقول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ قرآن مجید اپنے اصل الفاظ میں محفوظ رکھی گئی ہیں اور نہ انہیں ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے باقی رہنے دیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا محمد ﷺ کے زمانے میں یہ تینوں کتابیں مستقل کتابوں کی حیثیت سے موجود تھیں یا نہیں، کم از کم تورات کے متعلق یہ بات خود پرانے عہد نامے کے بیانات سے بھی اور ہمارے ہاں کی احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہودیوں کے ہاں یہ ایک مدت تک ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے پائی جاتی تھی اور محمد ﷺ کے زمانے میں اس کا ایک نسخہ مدینے کے یہودیوں کے پاس موجود تھا۔
(ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۷۵ھ، اکتوبر ۱۹۵۵ء)