اقامتِ دین کے بارے میں چند ذہنی اشکالات
سوال: رسول اللہﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ان کے بارے میں بِلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔ لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافتِ راشدہ کا نظام جلد درہم برہم ہو گیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے جن کا اسلامی تحریک کے ارتقاء پر ناخوشگوار اثر پڑا۔ ان حالات سے پیدا شدہ چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ نبی کریمﷺ کے اتنے قریبی زمانے میں اور عہدِ نبوی میں تربیت یافتہ صحابہ کی موجودگی میں اگر مسلم سوسائٹی میں خلفشار پیدا ہو سکتا ہے تو آج ہم لوگ جو ان سلف صالحین کی بلندیوں کے تصور سے بھی عاجز ہیں، کس چیز پر فخر کر سکتے ہیں اور کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کر سکیں گے؟
۲۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام اس تیز رفتاری سے پھیل رہا تھا کہ اس مناسبت سے اس میں داخل اور شامل ہونے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہو سکتا تھا تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلفاء اسلام نے نظامِ اسلامی اور مسلم معاشرہ کو پورے طور پر استوار اور مستحکم (Consolidate) کیے بغیر اس کی توسیع (Expansion) کیوں ہونے دی؟
۳۔ اگر ہمارے پیشرو لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکے تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامتِ دین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
جواب: آپ کے سوالات جتنے آسان اور مختصر معلوم ہوتے ہیں ان کا جواب اتنے اختصار اور آسانی سے دینا محال ہے۔ ان مسائل پر مفصل بحث سردست مشکل ہے صرف مجمل جوابی اشارات عرض ہیں۔ اللہ نے چاہا تو انہی سے آپ کی تشفی ہو جائے گی۔
۱۔ اپنی قومی تاریخ میں ہمیں محض دھبوں ہی کی تلاش نہیں کرنی چاہیے اور صرف ان ہی کے تصور پر شرما کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ ہماری تاریخ بہت سے روشن نشانات کی بھی حامل ہے۔ ہمیں ان پر بھی فخر کرنا چاہیے اور انہیں نگاہ میں رکھ کر امید اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ روشن نشانات کو دیکھنے سے گریز کرنا اور صرف دھبوں کا خیال کر کے دل مسوس کر بیٹھ جانا بہت بیجا قسم کی قنوطیت ہے۔
۲۔ توسیع اور استحکام کے درمیان توازن و تناسب ذہنی دنیا میں تو قائم کیا جاسکتا ہے مگر عملی دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے۔ ایک شخص اگر آپ کے پاس شرک یا کفر سے توبہ کرنے کے لیے آئے تو آخر کس عذر کی بناء پر آپ اسے الٹا واپس کر دیں گے؟ کیا آپ اس سے یہ کہیں گے کہ اس وقت میں استحکام میں مصروف ہوں اور توسیع کا کام میں نے فی الحال بند کر رکھا ہے؟
۳۔ انسان جب تک انسان ہے اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہر شخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیر ارادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۵۳ء)