اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت کی مزید وضاحت
سوال: بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں۔ چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں۔ ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراً خط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ترجمان القرآن کاموصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسائل وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباً سارا رسالہ ختم کر دیتا ہوں۔ اس دفعہ ’’رسائل و مسائل‘‘ میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔
میں حضرت مولانا مدنی رحمتہ اللہ علیہ کا شاگرد اور مسترشد ہوں اس عام تعلق کے علاوہ بعض وجوہات کی بناء پر حضرتؒ سے خصوصی ربط و تعلق بھی ہے اور موجودہ دور کے تمام علماء و مشائخ میں سب سے بڑھ کر مجھے عقیدت حضرت کے ساتھ ہے اور میں نے جو کمالات اور علمی و عملی فضائل کا ادراک ان کو دیکھ کر اور آزما کر کیا ہے اب تک اور کہیں سے نہیں ہوا۔ لیکن اس قدر شدید تعلق اور عقیدت و احترام کا جذبہ رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بارے میں حضرت شیخ کی جو رائے تھی چونکہ میرا ایمانی ضمیر اس پر مطمئن نہیں تھا اس لیے میں نے حضرت کی رائے قبول نہیں کی۔ اگرچہ اس سے ان کی عقیدت میں بھی کوئی فرق اپنے اندر نہ آنے دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شرعاً میرے لیے ضروری نہ تھا کہ اگرچہ مجھے شرح صدر نہ بھی ہوا ہو اور بات بالکل سمجھ میں نہ آتی ہو لیکن پھر بھی ضرور حضرت کی یہ رائے میں مان لوں اور جماعت اسلامی یا اس کے بارے میں وہ رائے رکھوں جو خود حضرت رکھتے تھے۔ چونکہ جماعت اسلامی کے بارے میں میرا رویہ اپنی پوری جماعت مسلک دیوبند کے خلاف رہا اس لیے بعض لوگوں نے اس کو اپنے اساتذہ سے بغاوت سمجھا اور اسی جرم میں آج تک میں بعض کے ہاں مغضوب و معتوب ہوں اور بعض کے ہاں ملوم و مخزول۔ کوئی احسان جتانا مقصود نہیں، محض اظہارِ واقعہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ محض اس ’’جرم‘‘ پر مجھے کافی دنیوی اور مادی خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ اور بہت سے فوائد و منافع کے تمتع سے محروم رہا ہوں۔ اور مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں۔ کیونکہ میں نے جو روش اب تک اختیار کی ہے خالص اللہ تعالیٰ کی خاطر کی ہے اور میں اس کو ایمانی تقاضا سمجھتا ہوں۔ بہرحال یہ تو ایک تمہید تھی۔ مقصد یہ ہے کہ میں جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں یہ کسی گروہی عصبیت کی بناء پر نہیں بلکہ میں خود دینی تقاضا اور خیر خواہی سمجھ کر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل بھی ترجمان القرآن میں حضرت مدنی کی کتاب ’’نقش حیات‘‘ کی ایک عبارت کے بارے میں آپ سے کسی نے سوال کیا تھا اور آپ نے اس کے جواب میں جو لکھا تھا اس میں کافی تلخی اور تیزی و تندہی پائی جاتی تھی۔ اول تو اس سوال کا جواب آپ کو دینا نہیں چاہیے تھا۔ سائل سے آپ یہ کہہ سکتے تھے جیسا کہ ابتدائی جواب میں لکھا بھی گیا تھا کہ عبارت کا مطلب خود مولانا سے پوچھیے۔ ان کی عبارت ہے وہ خود اس کی تشریح کر دیں۔ لیکن آپ نے اپنی طرف سے خواہ مخواہ بِلا ضرورت سخت کلمات لکھ دیے۔ میں نے وہ جواب پڑھا تو مجھے بھی مناسب معلوم نہ ہوا، مگر آپ سے بھی تعلق و عقیدت ہے اس لیے اس کی توجیہہ و تاویل کی اور اپنے تاثر کو دبا دیا۔ لیکن انہی ایام میں مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہل علم جو جماعت کے ساتھ غیر رسمی طور سے وابستہ تھے اور بہت کام بھی کیا کرتے تھے اس طرز جواب پر سخت ناراض ہو گئے۔ ان کی رائے آپ کے بارے میں بدلنے لگی اور انہوں نے جماعت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مجھ سے بھی انہوں نے گفتگو کی بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں آپ سے اس سلسلہ میں خط و کتابت کروں کہ آپ یہ بالکل بِلاضرورت اس قدر دل آزاری کے کلمات کیوں شائع فرماتے ہیں۔ مگر میں نے اس وقت سکوت اختیار کیا۔ تازہ پرچہ میں پھر اسی بات کو ذرا اس سے بھی زیادہ تیز الفاظ میں دہرایا ہے۔ حضرت مدنیؒ کی وفات کے بعد پھر ایسی باتیں تازہ کرنا اور اس انداز کے ساتھ لکھنا تو اور بھی نامناسب ہے۔ عام طور سے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ میرے بارے میں اور جماعت کے بارے میں ایسا ہی طرز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ کو ایسے امور میں دوسروں کی تقلید تو نہیں کرنی چاہیے۔ میں واقعہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک داعی حق ہونے کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے اور یہ اندازِ تحریر آپ کی شان سے بہت ہی فروتر ہے۔ اگر اس تحریر پر آپ کا نام نہ ہوتا تو میں نے تو اپنے ذوق کے مطابق یہ کبھی یقین نہ کرتا کہ آپ اس سطح پر آسکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی نے یہ سوال آپ کے پاس بھیجا تو آپ کو اس کا جواب دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر مستفسر کو یہ افسوس ہے کہ ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں تو اپنے اس افسوس کے ازالہ کے لیے آخر وہ آپ سے کیوں خط و کتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ یا تو وہ حضرت کی حیات میں ان سے خط و کتابت کرتے۔ یا ان کی وفات کے بعد ان کے کسی جانشین، تلمیذ خاص یا کسی اور متعلق سے پوچھ لیتے۔ مولانا مرحوم کے ساتھ تو آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان کی متعارض عبارات کی تطبیق کی ذمہ داری آپ پر پڑتی ہے اور آپ خواہ مخواہ جواب دہ ہیں۔ میں تو آپ پر اس کی کوئی بدگمانی نہیں کرتا لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقہ سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کر دیا جائے۔ مولانا مرحوم کی عبارت سے جو نتائج آپ نے اخذ کیے ہیں اور پھر ان پر تنقید کی ہے میرے خیال میں آپ نے اس میں بھی اپنے بلند مقام سے اتر کر گفتگو کی ہے۔ عام علماء اگر آپ کی عبارات کے ساتھ یہی طریقہ برتتے ہیں تو جائز طور پر وجہ شکایت پیدا ہوتی ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔ اس لیے میں آپ سے بھی شکایت کو جائز اور احتجاج کو تقاضائے انصاف سمجھتا ہوں۔ یہ جواب شائع کر کے واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دینی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ اقامتِ دین کی منزل قریب لانے میں بھی اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ اس سے سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشخاص کی دل آزاری ہوئی جو آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی جدوجہد کو ایک دینی جدوجہد سمجھ کر نظریہ یا عمل کے اعتبار سے آپ کے شریک کار ہیں۔ خواہ آپ اسے اندھی عقیدت و تقلید کہیں یا اور کچھ۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مدنیؒ کی محبت و عقیدت تمام علماء اور دیندار طبقہ کے سویدائے قلب میں جاگزیں ہے۔ ان کی کسی رائے یا فتویٰ کو ممکن ہے بعض حضرات کسی وجہ سے قبول نہ کریں لیکن ان کی شان میں اگر ایسے کلمات کہے یا لکھے جائیں جن سے تنقیص و توہین ہوتی ہو تو ان کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہے۔ پس ان کی وفات کے بعد جن باتوں کو چھیڑنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں اور ان کو چھیڑنے اور شائع کرنے سے دین کا ذرّہ برابر فائدہ نہ ہو رہا ہو تو خواہ مخواہ کے لیے ایک نیا میدان جنگ کیوں گرم کر دیا جائے۔ موجودہ نازک حالات میں آنے والے انتخابات کی اہمیت کو محسوس فرما کر آپ نے بھی الاہم فالاہم کے اصول پر اور حکمتِ عملی سے کام لے کر دوسرے بہت سے امور میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا، تو کیا یہ حکمتِ عملی میں شامل نہیں ہو سکتا کہ ان ایام میں علمائے کرام کو بالکل نہ چھیڑا جائے خواہ ان میں سے بعض تجاوز بھی کر جائیں لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ حضرات کا تمام چھوٹے بڑے الزامات کا مقابلہ میں سکوت اختیار کرنا اور مرواً کراماً پر عامل بن جانا، دین کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور اسی میں جماعت کا وقار بھی ہے۔ بات بہت طویل ہو گئی، مقصد آپ مختصر اشارہ سے بھی سمجھ سکتے تھے۔ آپ ضرور اس بات پر غور فرما کر اس کا اب تدارک کریں اور اس کے مضر اثرات کو کسی احسن طریقہ سے زائل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کے بارے میں جو کچھ علماء اعتراضات کر رہے ہیں ہم کو تو شب و روز ان کی جواب دہنی کرنی پڑتی ہے۔ میں تو رسمی طور سے متعلق نہ ہونے کے باوجود لوگوں کے خیال میں ’’پکا مودودی‘‘ ہوں۔ میں ان اعتراضات کی مدافعت کرتا رہا ہوں۔ لیکن اس تازہ تحریر پر کوئی اعتراض کرے تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور پھر آپ کے بارے میں کچھ کہا جائے اس کی برداشت بھی مشکل سے ہوتی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس کا اثر تحریک پر اور اس واسطہ سے اقامت دین کے فریضہ پر پڑ جاتا ہے۔ آپ کا بہت سا قیمتی وقت اس پریشان گوئی میں خرچ کر دیا۔ مگر خدا کرے اس کا نتیجہ کوئی اچھا نکلے‘‘۔
جواب: مولانا مدنیؒ مرحوم کے ساتھ آپ کے تعلق سے میں واقف ہوں، اور اس گہرے تعلق کے باوجود میرے اور جماعت اسلامی کے ساتھ آپ کا جو ربط ہے اسے میں آپ کی انصاف پسندی و حق پرستی کی کھلی دلیل سمجھتا ہوں جس کی اگر قدر نہ کی جائے تو ظلم ہوگا۔ لیکن رسائل و مسائل میں ’’نقشِ حیات‘‘ کی جن عبارتوں کے متعلق ایک صاحب سے میری جو مراسلت شائع ہوئی ہے اس پر آپ کے اعتراضات میری سمجھ میں نہیں آئے۔ آپ خود بھی اگر مولانا کی عقیدت سے صَرف نظر کر کے دوبارہ اس مسئلہ پر غور کریں تو مجھے امید ہے کہ آپ بھی اپنے ان اعتراضات میں کوئی معقولیت محسوس نہ فرمائیں گے۔
’’نقشِ حیات‘‘ جلد دوم کی جو عبارات زیر بحث ہیں، سب سے پہلے آپ خود ان کو مولانا کی کتاب میں پورے سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ فرمالیں۔ عبارات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید رحمتہ اللہ علیہ جو کہ اس تحریک کے سردار اور بانی ہیں ان کے خط میں جو کہ وزیر گوالیار کے نام مدد طلب کرنے کے لیے لکھا گیا تھا (جس کو ہم بجنسہ آگے ذکر کریں گے) صاف طور پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ہمارا مقصد ہندوستان کو اس بدیسی قوم (انگریز) کے مظالم سے پاک کرنا ہے۔ اس کے بعد ہندو اور مسلم مل کر بادشاہت کے لیے جس کو مناسب سمجھیں منتخب کریں‘‘۔
(نقشِ حیات، صفحہ ۵)
آگے صفحہ ۱۳، ۱۴ پر مولانا نے سید صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا مذکورہ بالاخط نقل فرمایا ہے مگر اس میں خط کشیدہ مضمون موجود نہیں ہے بلکہ اس میں اس کے برعکس یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ایں ضعفاء را از روساء کبار و عظماء عالی مقدار ہمیں قدر مطلوب است کہ خدمت اسلام بجان و دل کنند و برمسند مملکت متمکن شوند‘‘۔
۲۔ ’’علاوہ ازیں کسی فرقے کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اس فرقے کے لیے بھی حکومت کے عہدوں اور منصوبوں (منصبوں) کے دروازے ایسے ہی کھلے رکھے جائیں جیسے کہ خود اپنے فرقہ کے لوگوں کے لیے اور ملکی و انتظامی معاملات میں کسی قسم کا کوئی تعصب نہ برتا جائے۔ قرآن کا حکم ہے وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ‘‘ الایہ (صفحہ ۱۰)
۳۔ ’’اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد اس میں اضمحلال آنا شروع ہوا اور حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے رہے۔ تو اب علماء نے ان کی اصلاح کی کوشش کی اور اس کوشش سے ان کا مقصد ملک کی خوشحالی، امن و امان، سکون و اطمینان، ظلم و جور کی بیخ کنی اور خلق خدا کی عام رفاہیت و بہبود تھا۔ ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ حکومت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جس کی بھی حکومت ہو انصاف کرے‘‘۔ (صفحہ ۱۱)
۴۔ ’’شاہ عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے فتوے کا جو اقتباس اوپر گزر چکا ہے اس میں دو باتیں خاص طور پر لحاظ رکھنے کے قابل ہیں… (۲) شاہ صاحب کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لیے اس میں محض مسلمانوں کی آبادی کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ اس کے لیے وہ یہ بھی ضروری جانتے ہیں ہیں کہ مسلمان باعزت طریقہ پر رہیں اور ان کے شعائر مذہبی کا احترام کیا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی و دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہو گا (صفحہ ۱۱)
حضرت شاہ صاحب کا جو فتویٰ مولانا نے صفحہ ۶، ۷ پر نقل کیا ہے وہ اس کے برعکس معنی دے رہا ہے۔ اس میں تو شاہ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ جہاں امام مسلمین کا حکم جاری نہ ہو بلکہ کفار کا حکم چل رہا ہو وہاں بعض احکام اسلام سے تعرض نہ ہونا لاحاصل ہے۔ محض جمعہ و عیدین یا اذان و ذبح بقر کی آزادی ایسی سرزمین کو دارالاسلام نہیں بنا سکتی۔
۵۔ ’’بے شک سید صاحب جگہ جگہ اعلائے کلمۃ اللہ اور دین رب العالمین کی خدمت کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کو اپنی مساعی کا محرک بتاتے ہیں لیکن آپ یہ خوب سمجھتے تھے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ ایک فرقہ وار گورنمنٹ قائم کی جائے اور خود حاکم بن کر دوسرے برادرانِ وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے بلکہ اس کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ برادران وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کر کے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے‘‘۔ (صفحہ ۱۵)
عبارت نمبر۱ کے متعلق تو کوئی شک کرنے کی گنجائش نہیں کہ یہ مولانا کی اپنی ہے، کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جس کی بناء پر یہ گمان کیا جاسکتا ہو کہ یہ کسی اور کی عبارت نقل کی گئی ہے۔ اس کے بعد صفحہ ۶ پر مولانا نے کسی البرہان نامی پرچے سے ایک اقتباس نقل فرمایا ہے جو کتابت کے معروف قاعدے کے مطابق دونوں طرف حاشیہ چھوڑ کر متن کے قلم سے خفی تر قلم میں لکھا گیا ہے اور یہ اقتباس صفحہ ۷ کی ابتدائی تین سطروں پر ختم ہو گیا ہے۔ پھر صفحہ ۷ سے مسلسل صفحہ ۱۶ تک ساری عبارت متن کے انداز میں چلتی ہے جس کے اندر جگہ جگہ دوسری کتابوں کے اقتباسات مع حوالہ نقل ہوئے ہیں۔ تحریر و کتابت کے جو معروف قواعد ہمارے ہاں رائج ہیں ان کے لحاظ سے جو شخص بھی ان صفحات کی عبارتوں کو پڑھے گا وہ لامحالہ انہیں متن ہی کی عبارات سمجھے گا۔ لیکن صفحہ ۱۶ کا پہلا پیراگراف ختم ہوتے ہی یکایک ہمارے سامنے پھر (البرہان نمبر۲، جلد ۲۱، صفحہ از ۷۴ تا ۸۷) کا حوالہ آجاتا ہے اور الٹ پلٹ کر دیکھنے سے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ البرہان سے نقل کردہ عبارت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حوالہ صرف عبارت نمبر۵ سے متعلق ہو جسے کسی طویل تحریر سے خلاصے کے طور پر لیا گیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ عبارات نمبر ۲، ۳، ۴ بھی البرہان ہی سے منقول ہوں۔ اس البرہان کو ہم نہیں جانتے کہ یہ کون سا پرچہ ہے۔ دہلی کا جریدہ برہان تو اس سے مراد نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کا نام برہان ہے، البرہان نہیں۔ اس لیے اصل کی طرف رجوع کر کے تحقیق کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگر صفحہ ۶ سے ۱۶ تک کا پورا مضمون بھی (جس میں عبارات نمبر۲، ۳، ۴، ۵ واقع ہوئی ہے) البرہان کو مان لیا جائے تو اس سے پہلے اور اس کے بعد جو کچھ مولانا نے فرمایا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولانا اس پورے بیان کی توثیق فرما رہے ہیں، اسے استشہاداً نقل فرما رہے ہیں، اور انہوں نے اشارۃً و کنایتہ بھی اس کے کسی جز سے اختلاف نہیں فرمایا ہے۔ اس طرح جب کوئی شخص اپنے کسی بیان کی تائید میں کسی دوسرے کی عبارت نقل کرتا ہے اور اس کے کسی جزو سے اختلاف کا اظہار کیے بغیر اس کی توثیق کر دیتا ہے تو اس سے لازماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کا ہم خیال ہے اور الفاظ میں نہیں تو معنی میں ضرور اس کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے۔
اب ذرا ان عبارتوں کو آپ خود دیکھیے۔ ان میں کوئی باریکی یا پیچیدگی نہیں ہے کہ ایک عام آدمی ان کا مطلب نہ سمجھ سکے، اور تاویل سے ان کے مختلف مفہومات نکل سکتے ہوں۔ صاف صاف زبان میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ:
۱۔ جس ملک میں مسلم اور غیر مسلم ملے جلے آباد ہوں وہاں اسلامی حکومت قائم کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ یہ ایک ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ ہوگی، اور اگر مسلمان اس میں خود حاکم بن کر دوسرے برادرانِ وطن کو اپنا محکوم بنائیں تو یہ خلافِ انصاف ہوگا۔ ایسے ملک میں صحیح طریق کار یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترکہ حکومت بنے اور یہی اعلائے کلمۃ اللہ کا بھی سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے۔
۲۔ کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہاں اسلام کے احکام جاری ہوں اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اقتدار اعلیٰ غیر مسلموں کے ہاتھ میں بھی ہو تو ملک دارالاسلام ہو سکتا ہے اگر مسلمان بھی فی الجملہ اقتدار میں شریک رہیں اور ان کے مذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا رہے۔
۳۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی اگر حکومت ہو تو یہ ضروری ہے کہ غیر مسلموں کے لیے تمام عہدوں اور منصبوں کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ یہ خود قرآن کی تعلیم ہے اور ایسا نہ کرنا خلاف عدل ہے۔
۴۔ پچھلے دو ڈھائی سو برس میں ہمارے علماء و صلحاء نے برعظیم ہند میں اصلاح احوال کی جتنی کوششیں کی ہیں ان میں سے کسی کا مقصود بھی یہاں اسلامی حکومت قائم کرنا نہ تھا۔ وہ صرف اچھی حکومت چاہتے تھے خواہ اس کے حاکم مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
۵۔ حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اللہ کی تحریک کا مقصود بھی اسلامی حکومت کا قیام نہ تھا۔ وہ صرف انگریزوں کو نکالنے کے لیے اٹھے تھے اور اس کے بعد ان کے پیش نظر یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترک حکومت قائم کر لیں۔
ان باتوں میں سے نمبر۲ کے متعلق مولانا حسین احمد صاحب مرحوم نے توجہ دلانے پر صرف اتنی توضیح فرمائی تھی کہ وہ ہندوستان کی موجودہ حکومت پر دارالاسلام کی اصطلاح کا اطلاق نہیں فرماتے اور نمبر ۵ کے متعلق صرف یہ تشریح کی تھی کہ ان کے نزدیک حضرت سید احمد شہید کے پیش نظر سیکولر اسٹیٹ (لادینی ریاست) قائم کرنا نہ تھا۔ لیکن آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان توضیحات سے ان اصولی باتوں میں قطعاً کوئی فرق واقع نہیں ہوتا جو مذکورہ بالا نکات میں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہر نکتہ اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے اور ہر ایک اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کا زہریلا اثر صرف ہندوستان کے مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پاکستان تک جاپہنچتا ہے۔ یہاں بھی جو لوگ مولانا کے شاگرد، مرید یا عقیدت مند ہیں، یا دین کے معاملہ میں ان کے علم پر اعتماد رکھتے ہیں، ان کی ایک کثیر تعداد مولانا کے ان خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی، اور ان خیالات کا اثر جو بھی قبول کرے گا اس کا نقطہ نظر لازماً یہ بنے گا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنا غلط اور مسلم و غیر مسلم کی مشترک حکومت قائم کرنا ہی صحیح ہے، اس کے ذہن میں دارالاسلام کی ایک سراسر غلط تعریف بیٹھ جائے گی۔ وہ ایک روادار لادینی حکومت کو بھی اطمینان کے ساتھ دارالاسلام سمجھ لے گا اور اس کے بعد مشکل سے ایک خالص اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کوئی تڑپ اس کے دل میں باقی رہ جائے گی۔ وہ ماضی قریب کی تمام اسلامی تحریکوں کے متعلق بھی بالکل ایک غلط تصور لے کر بیٹھ جائے گا اور یہ باور کر لے گا کہ اس دور میں ہمارے تمام دینی پیشوا اسلامی حکومت قائم کرنے کے بجائے اصولاً اسی طرز کی مشترک ہندو مسلم حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جیسی ہندوستان کے کانگریسیوں نے قائم کی ہے اور پاکستان کے کانگریسی، عوامی لیگی، ری پبلکن اور نیشنل عوامی پارٹی کے لوگ قائم کرنا چاہتے ہیں پھر ان سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر جس شخص کا بھی بن جائے گا وہ مشکل ہی سے الجھن میں مبتلا ہونے سے بچ سکے گا کہ اگر فی الحقیقت انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم و غیر مسلم کے مشترک وطن میں ایک ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم نہ کی جائے تو پھر رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین نے جو ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کی تھی جس کی مجلس شوریٰ میں ایک بھی غیر مسلم نہ تھا جس میں کوئی جج، کوئی گورنر، کوئی عامل، کوئی سپہ سالار غیر مسلم نہ تھا، جس میں غیر مسلم ذمی بنائے گئے تھے اور ان پر جزیہ لگایا گیا تھا۔ جس میں خالص اسلامی آئین و قانون رائج تھا اور نظم حکومت کی پالیسی متعین کرنے میں بھی غیر مسلموں کا کوئی دخل نہ تھا، آخر اس کو کس دلیل سے انصاف قرار دیا جائے گا؟ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کا راجح طریقہ قرار پائے گا یا مرجوح؟ وہ حکومت ہمارے لیے معیار قرار پائے گی یا مغل حکومت جسے مولانا ’’نقش حیات‘‘ میں بار بار نظیر کے طور پر پیش کرتے ہیں؟
یہ باتیں ہیں جن کے متعلق آپ مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان پر گرفت نہ کروں اور ان کے معاملہ میں خاموشی اختیار کروں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی وقت تنہائی میں خالصتاً لوجہ اللہ اپنے ضمیر سے پوچھیے کہ کیا واقعی مجھ سے آپ کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے؟ اس میں دین اور اس کی مصلحت کی بہ نسبت اپنا استاد اور اپنا گروہ تو آپ کے لیے عزیز تر نہیں ہو گیا ہے؟ اس کے لیے جو دلائل و وجوہ آپ نے بیان کیے ہیں ان میں سے کسی کے اندر بھی خود آپ کوئی وزن محسوس کرتے ہیں؟
آپ کہتے ہیں کہ حضرت مدنیؒ کی وفات کے بعد ایسی باتیں کرنا مناسب نہ تھا؟ لیکن یہ بات اسی صورت میں درست ہو سکتی ہے جبکہ حضرت موصوف کے ذاتی عیوب پر کوئی کلام کیا جائے۔ ایسی بات جو شخص بھی کرے اسے ملامت کرنے میں آپ کے ساتھ میں بھی شریک ہوں گا۔ لیکن دینی معاملات یا اجتماعی مسائل میں کسی شخص کے خیالات پر بحث نہ کرنے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کا انتقال تو بے شک ہو چکا ہے مگر اس کے خیالات تو شائع شدہ صورت میں موجود ہیں اور رہیں گے اور لوگوں کے ذہن پر اثر ڈالتے رہیں گے۔ ان پر اگر اس دلیل سے بحث کرنا غیر مناسب ہے کہ ان خیالات کا پیش کرنے والا دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو یہ چیز مولانا حسین احمد صاحب ہی کے لیے خاص کیوں ہو۔ پھر تو کسی وفات یافتہ شخص کے کارنامے پر بھی بحث کرنا درست نہ ہوگا اور ہمیں تمام ہی پچھلے لوگوں کے غلط خیالات کو پھیلنے کی کھلی چھٹی دینی پڑے گی۔
آپ کہتے ہیں کہ مستفسر نے مولانا کے ارشادات کے متعلق تم سے جو سوال کیا تھا اس کا جواب تمہارے ذمہ تو نہ تھا۔ تمہیں اس کا جواب دینے کی کیا ضرورت تھی؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر مولانا کے سوا کسی اور شخص کے گمراہ کن خیالات سے پریشان ہو کر کسی نے مجھ سے سوالات کیے ہوتے اور میں نے اس کے جواب میں ان خیالات کی تردید کر کے اسے اور دوسرے بندگانِ خدا کو ان سے بچانے کی کوشش کی ہوتی تو کیا اس وقت بھی آپ مجھ سے یہی بات کہتے جو اب کہہ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب مجھے دینے کے بجائے آپ اپنے ضمیر ہی کو دے لیں اور خود ہی غور کریں کہ اس خاص معاملے میں عام حالات سے مختلف طرزِ عمل جو آپ اختیار فرما رہے ہیں اس کا اصل محرک کون سا جذبہ ہے اور آیا وہ للہ و فی اللہ ایک محمود جذبہ ہے یا اس میں نادانستہ اسی تخرب اور اپنوں کی جانبداری کا وہ لوث شامل ہو گیا ہے جو خدا کے بے لاگ دین کی نظر میں کبھی محمود نہیں ہوسکتا۔
آپ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت مدنی کی محبت و عقیدت تمام علماء اور دیندار طبقہ کے سویدائے قلب میں جاگزین ہے اور ان کے خیالات پر تنقید کرنا ان لوگوں کو ناگوار ہوتا ہے، اس لیے مجھے یہ کام نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے وہ لوگ میری اور جماعت کی تائید سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ میں اس کے جواب میں مختصراً صرف اتنا عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جو شخص میرے اور جماعت اسلامی کے اس کام کو میرا اور جماعت کا کوئی ذاتی ’’کاروبار‘‘ سمجھتا ہو اور اس میں بطور احسان ہاتھ بٹانے آرہا ہو تو وہ سخت گناہ گار ہے کیونکہ دین کے نام سے کاروبار کرنا اور اس کاروبار میں حصہ لینا وہ بدترین تجارت ہے جس سے زیادہ خسارے کا سودا شاید ہی کوئی ہو۔ کسی نے اگر آج تک یہ سمجھتے ہوئے ہماری تائید کی ہے تو اب اسے توبہ کرنی چاہیے اور فوراً اس تائید سے دست کش ہوجانا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ہمارے اس کام کو خالصتاً للہ دین کا کام سمجھ کر ہماری تائید کرنے آتا ہے تو اس کے اور ہمارے درمیان جو معاملہ بھی ہوگا خالص حق پرستی کی بنیاد پر ہوگا۔ نہ ہم اس سے کوئی مطالبہ حق کے خلاف کر سکتے اور نہ وہ ہم سے خلافِ حق کوئی مطالبہ کر سکتا ہے۔ کسی کے پاس اگر اس مطالبے کے لیے کوئی دلیل ہو کہ ’’دنیا میں اور جو بھی دینی تصورات اور اصولوں کے خلاف کوئی کام کرے اس کی تو خبر لے ڈالو مگر ہمارے حضرتوں میں سے کوئی یہ کام کرے تو اس پر دَم نہ مارو‘‘۔ تووہ براہِ کرم اپنی دلیل پیش کرے۔ ہم بھی غور کریں گے کہ قرآن و حدیث یا سلف صالحین کے اسوہ میں اس دلیل کو کوئی مقام حاصل ہے یا نہیں اور اگر ایسی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی شرطیں لے کر جو لوگ خدا کا کام کرنے کے لیے ہمارے ساتھ آئیں وہ ہمارے لیے سبب قوت نہیں بلکہ سراسر سبب ضعف ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں کبھی حق قائم نہیں کر سکتے۔ وہ سب بیک وقت ہماری تائید سے دست کش ہو جائیں تو ہم اللہ کا شکر کریں گے۔
آ پ نے بار بار اس بات کی بھی شکایت کی ہے کہ میں نے حضرت مدنی کی عبارتوں پر تنقید کرنے میں بڑا دل آزار اندازِ بیان اختیار کیا ہے اور بہت نیچی سطح پر اتر گیا ہوں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ایک دل آزاری تو وہ ہے جو ایسی صورت میں لازماً ہر عقیدت مند آدمی کو ہو جاتی ہے جبکہ اس کے کسی محبوب بزرگ کے خیالات کی تردید کی جائے۔ یہ چیز بجائے خود ہی تکلیف وہ ہے، اس لیے اس کا شکوہ آپ کریں تو میں اس کی کوئی تلافی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر اس سے زائد کوئی چیز آپ کو میری تحریر میں نظر آئی ہو جس پر واقعی ’’دل آزاری‘‘ کے معروف معنی کا اطلاق ہو سکتا ہو تو اس کی نشاندہی فرمائیں۔ مجھے اس پر اظہارِ معذرت کرنے میں ذرّہ برابر تامل نہ ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اپنے بزرگوں کے معاملہ میں شاگردوں اور مریدوں کی زباں استعمال کرنا آپ حضرات کے لیے تو بلاشبہ درست ہے اور آپ کو ایسا ہی کرنا چاہیے، مگر دنیا بھر سے آپ یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ وہ بھی آپ کے بزرگوں کے سامنے شاگردانہ اور مریدانہ عجز و نیاز مندی اختیار کرے۔ آپ کے اپنے گروہ میں دوسرے گروہوں کے بڑوں سے اختلاف کرتے ہوئے جو بہتر سے بہتر اسالیب بیان استعمال ہوتے ہیں انہی کو آپ معیار مان لیں اور اس کے لحاظ سے دیکھیں کہ میری ان دونوں تحریروں میں جن کا آپ نے شکوہ کیا ہے کیا یہ چیز واقعی قابل شکایت ہے۔
آپ نے اشارۃً یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ میں نے مولانا مرحوم کی کتاب سے عبارات نقل کرنے اور ان سے نتائج نکالنے میں وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو بعض مولوی صاحبان نے میرے ساتھ اختیار کیا ہے۔ میں نے آپ کی اس تنبیہ کے بعد پھر ایک مرتبہ نقش حیات کو پڑھ کر یہ تحقیق کرنے کی پوری کوشش کی کہ کہیں واقعی مجھ سے ایسی کوئی زیادتی تو نہیں ہو گئی ہے، مگر خدا گواہ ہے کہ مجھے ایسی کوئی چیز نہ ملی۔ یوں آپ کا شکر گزار ہوں گا اگر آپ واضح طور پر نشاندہی فرمائیں کہ میں نے کہاں عبارات میں کوئی تحریف کی ہے۔ یا سابق و لاحق سے کاٹ کر ان میں کوئی نئے معنی داخل کیے ہیں، یا ان سے ایسے نتائج اخذ کیے ہیں جو خود ان عبارات سے نہیں نکلتے۔ ایسی جس زیادتی کی بھی آپ نشاندہی فرمائیں گے مجھے اس پر اعتراف قصور اور اظہارِ ندامت میں ذرّہ برابر تامل نہ ہوگا۔
آپ نے یہ خیال بھی ظاہر فرمایا ہے کہ میں نے ان عبارات پر گرفت کرنے میں انتقامی جذبہ سے کام لیا ہے۔ یہ بدگمانی آپ کرنا چاہیں تو کریں، مگر میں عنداللہ دوسروں کے گمانوں کے لیے نہیں بلکہ اپنی نیت ہی کے لیے جواب دہ ہوں۔ میرے نزدیک دین کا نام لے کر ذاتی محبت و نفرت یا نفسیاتی جذبات و اغراض کے لیے کوئی بات یا کام کرنا بدترین فریب کاری ہے اور میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسین احمد صاحب اور ان کے زیر قیادت دیوبند کے ایک خاص اسکول کی سیاست کو میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اس کو پوری ایمانداری کے ساتھ غلط سمجھا اور کہا ہے۔ اس سیاست کی تائید میں اسلام اور اسلامی تاریخ کی جو عجیب تعبیریں یہ اسکول کرتا رہا ہے وہ میرے نزدیک نہایت غلط اور دین و اہلِ دین کے لیے سخت مضر ہیں۔ اور میری قطعی رائے، خوب سوچی سمجھی رائے، بالکل بے لاگ رائے یہ ہے کہ انگریزی دور کی آمد پر سرسید اسکول جس مقام پر کھڑا ہوا تھا بدقسمتی سے ہندو دور کی آمد پر اسی مقام پر دیوبند کا حسین احمد اسکول آکھڑا ہوا، بلکہ مزید افسوس یہ ہے کہ اس سے بھی کچھ آگے بڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس رائے کی بنیاد محض نقشِ حیات کی چند عبارات نہیں ہیں بلکہ اس اسکول کا وہ پورا کارنامہ ہے جو پچھلے پندرہ بیس سال کی مدت میں اس سے ظہور میں آیا ہے۔
آپ نے مولانا کے بعض عقیدت مندوں کی اس رائے کا ذکر بھی فرمایا ے کہ یہ ’’مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقہ سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کر دیا جائے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ان حضرات کا مطلب یہ ہے کہ دراصل مجھے کسی شخص نے ان عبارات کے متعلق کوئی خط نہیں لکھا تھا بلکہ میں خود مولانا حسین احمد مرحوم پر حملہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے یونہی ایک خط و کتابت گھڑ لی گئی۔ واقعہ کے اعتبار سے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل خط و کتابت دفتر میں محفوظ ہے اور وہ صاحب بھی ہندوستان میں زندہ موجود ہیں جن کے خطوط کے جوابات میں نے دیے ہیں۔ آپ حضرات جب چاہیں وہ خط و کتابت بھی دیکھ سکتے ہیں اور خود اصل کاتب سے بھی اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ رہی اس گمان کی اخلاقی حیثیت تو جنہوں نے بے تکلف یہ افسانہ تصنیف کر ڈالا وہ خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ یہ کیسا تزکیہ نفس و اخلاق ہے جو مولانا مرحوم کے فیض صحبت سے ان کو میسر آیا ہے۔ اپنے گروہ کے لوگوں کے معاملے میں تو ان کے احساسات اتنے نازک ہیں کہ ان کی صریح غلطیوں پر بھی کوئی تنقید وہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مگر دوسروں کے دین و اخلاق پر حملہ ان کے نزدیک بالکل مباح ہے حتیٰ کہ اپنے دل سے ایک خیالی الزام بھی تصنیف کر کے وہ ان کے سر تھوپ سکتے ہیں۔ اس پر میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ خدا ان حضرات کو وہ حقیقی تقویٰ عطا فرمائے جس کی بناء پر آدمی زبان سے ایک بات نکالنے سے پہلے سوچ لیتا ہے کہ وہ خدا کو کیا جواب دے گا۔
(ترجمان القرآن۔ ذی قعدہ ۱۳۷۷ھ۔ جولائی ۱۹۵۸ء)