فتنۂ تصویر
سوال: آج کل تصویروں اور فوٹو گرافی کا استعمال کثرت سے ہے۔ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں ان کا استعمال ایک تہذیبی معیار بن گیا ہے۔ بازار کی دکانوں میں، مکانوں کے ڈرائنگ روموں میں، رسالوں کے سرورق پر، اخباروں کے کالموں میں، غرضیکہ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے اس لعنت سے سابقہ پڑتا ہے اور بعض اوقات توجہ مبذول ہو کے رہتی ہے۔ کیا نسوانی تصویروں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا گناہ ہے۔
جواب: تصویروں کا فتنہ فی الواقع ایک بلائے عام بلکہ سیلاب بَلا کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کا کوئی علاج میرے علم میں اس کے سوا نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی نظام زندگی میں تغیر واقع ہو اور اس نظام کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو معاشرے میں تمام منکرات کے ظہور کو روک دیں۔ جب تک یہ سیلاب امنڈ رہا ہے، جو شخص جس حد تک بھی اس سے بچ سکتا ہو بچنے کی کوشش کرے۔ نسوانی تصویروں کے ساتھ بھی وہی غضِ بصر کا معاملہ کرنا چاہیے جو خود عورتوں کے لیے شریعت نے لازم کیا ہے، کیونکہ جیتی جاگتی عورت کو گھورنے اور اس کی تصویر کو دیکھنے کے اثرات ونتائج قریب قریب یکساں ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۲، عدد۵۔ اگست ۱۹۵۹ء)