خواب میں زیارتِ نبویؐ
سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریر فرما کر تشفی فرمائیں۔
حضورﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا۔ اور کماقال۔
اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟ کیا نبیﷺ کو جس شکل و شباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورﷺ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟ کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپ ہی کو دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟
جواب: اس حدیث کی صحیح تشریح یہ ہے کہ جس نے نبیﷺ کو حضورﷺ کی اصلی شکل و صورت میں دیکھا، اُس نے درحقیقت آپ ہی کو دیکھا۔ کیونکہ شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی ہے کہ وہ آپؐ کی صورت میں آکر کسی کو بہکا سکے۔ اس کی یہی تشریح حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اﷲ نے کی ہے۔ امام بخاری کتاب التعبیر میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اذراٰہ فی صورتہٖ (جب کہ دیکھنے والے نے آپ کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا ہو) علامہ ابن حجر صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص ابن سیرین سے کہتا کہ میں نے خواب میں نبیﷺ کو دیکھا ہے تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ تو نے کس شکل میں دیکھا۔ اگر وہ آپ کی کوئی ایسی شکل بیان کرتا جو آپ کے حلیہ سے نہ ملتی تو ابن سیرین کہہ دیتے تھے کہ تو نے حضورﷺ کو نہیں دیکھا ہے۔ یہی طرزِ عمل حضرت ابنِ عباس کا بھی تھا جیسا کہ حاکم نے بسند نقل کیا ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی کی توثیق کرتے ہیں۔ جن مختلف الفاظ میں یہ حدیث صحیح سندوں سے منقول ہوتی ہے ان سب کا مفہوم یہی ہے کہ ’’شیطان نبیﷺ کی شکل میں نہیں آسکتا‘‘۔ نہ یہ کہ شیطان کسی شکل میں آکر آدمی کو یہ دھوکا نہیں دے سکتا کہ وہ آنحضور کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبیﷺ کو دیکھے اور آپ سے کوئی امر یا کوئی نہی کا حکم سنے، یا دین کے معاملے میں کسی قسم کا ایماء آپ سے پائے تو اس کے لیے اس خواب کی پیروی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس تعلیم یا ایما کے مطابق کتاب و سنت ہونے کا اطمینان نہ کر لے۔ اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے ہمارے لیے دین کا معاملہ خوابوں اور کشفوں اور الہاموں پر نہیں چھوڑا ہے۔ حق اور باطل اور صحیح اور غلط کو ایک روشن کتاب اور ایک مستند سنت میں پیش کر دیا گیا ہے جسے بیداری میں اور پورے شعور کی حالت میں دیکھ کر راہِ راست معلوم کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی خواب یا کشف یا الہام اس کتاب اور اس سنت کے مطابق ہے تو خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اﷲ نے حضور کی زیارت نصیب کی، یا کشف و الہام کی نعمت سے نوازا۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف ہے تو اسے رد کر دیجیے اور اﷲ سے دعا مانگیے کہ وہ ایسی آزمائشوں سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے۔
ان دو باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بکثرت لوگ گمراہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں۔ متعدد آدمی میرے علم میں ایسے ہیں جو صرف اس بنا پر ایک گمراہ مذہب کے پیرو ہو گئے کہ انہوں نے خواب میں نبیﷺ کو اس مذہب کے بانی کی توثیق کرتے یا اس کی طرف التفات فرماتے دیکھا تھا۔ وہ اس گمراہی میں نہ پڑتے اگر اس حقیقت سے واقف ہوتے کہ خواب میں کسی شکل کے انسان کو نبیﷺ کے نام سے دیکھ لینا درحقیقت حضور کو دیکھنا نہیں ہے۔ اور یہ کہ خواب میں واقعی حضور ہی کی زیارت نصیب ہو تب بھی کوئی حکمِ شرعی اور امر دینی ایسے خواب سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے فریب سے تحفظ صرف اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آدمی حضور کو آپ کی اصلی شکل میں دیکھے تو اس کا فائدہ صرف انہی لوگوں کو حاصل ہو سکتا تھا جنہوں نے آپ کو بیداری میں دیکھا تھا۔ بعد کے لوگ آخر کیسے جان سکتے ہیں کہ جو شکل وہ خواب میں دیکھ رہے ہیں، وہ حضورﷺ ہی کی ہے یا کسی اور کی؟ ان کو اس حدیث سے کیا تسلی ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعد کے لوگ اس بات کا اطمینان تو نہیں کر سکتے کہ انہوں نے جو شکل خواب میں دیکھی وہ حضورﷺ ہی کی شکل تھی، مگر یہ تو معلوم کر سکتے ہیں کہ خواب کے معنی اور مضمون کی مطابقت قرآن و سنت کی تعلیم سے ہے یا نہیں، مطابقت پائی جاتی ہو تو پھر زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضورﷺ ہی کی زیارت کی ہے، کیونکہ شیطان کسی کو راہِ راست دکھانے کے لیے تو بہروپ نہیں بھرا کرتا۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ ۱۳۷۵ھ۔ جولائی ۱۹۵۶ء)