دلچسپ مین میخ
سوال: مہربانی فرما کر نہایت صاف اور سادہ الفاظ میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تحریر فرما کر مشکور فرمائیں، تاکہ ان معاملات میں ہماری غلط فہمی اور لاعلمی دور ہو جائے۔
۱۔ جب سابق دستوریہ نے قراردادِ مقاصد پاس کی تھی، تب جماعتِ اسلامی نے پاکستان کو دارالاسلام تسلیم کیا تھا۔ اب جبکہ گورنر جنرل صاحب بہادر نے دستوریہ کو مع اپنی تمام قراردادوں اور نامکمل آئین کے ختم کر دیا ہے، موجودہ دور میں آپ کے نزدیک پاکستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب؟
۲۔ آپ نے ابھی تک حج کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ نے اس سوال کے جواب میں یہ الفاظ کہے تھے؟ یا آپ کا یہی نظریہ ہے۔ ’’موجودہ جدوجہد ہمارے نزدیک حج سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
۳۔ پہلا حج فرض ہے اور دوسرا نفل۔ وہ کون کون سی ملکی، خانگی یا مذہبی فرائض اور سنت ادا کرنے ضروری ہیں جن کے پورا کیے بغیر دوسرا حج جائز نہیں؟ جس ملک کے باشندے بھوک، افلاس اور بدحالی کی زندگی گزارتے ہیں، اس ملک کے لوگوں پر دوسرا حج جائز ہے یا نہیں؟
۴۔ شہیدانِ ختمِ نبوت کو آپ کی جماعت کے ارکان و متفقین حرام موت مرنا کہتے رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کی جماعت کا ہی نظریہ ہے، یا ان لوگوں کا ذاتی نظریہ؟ اگر ذاتی ہے تو کیا اس مقدس تحریک میں ذاتی طور پر حصہ لینے والے لوگوں کے خلاف جماعتی کارروائی کی تھی۔ اسی طرح ایسا کرنے والوں کے خلاف آپ کوئی جماعتی کارروائی کریں گے؟
۵۔ آپ کے ہمارے شہر میں آنے پر جو ہزاروں روپے ناجائز تصرف کیے گئے، وہ غلط نہیں؟ آپ کے آنے کی خوشی اگر لازم تھی تو آپ کے ہاتھوں سے اتنی رقم کا اناج غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرا دیا جاتا تو بہتر نہ تھا؟
۶۔ آپ کی جماعت تعصب اور تنگ نظری پر کیوں قائم ہے؟
جواب: ۱۔ یہ بات خلافِ واقعہ ہے کہ گورنر جنرل نے سابق دستوریہ کی تمام قراردادوں اور نامکمل مسودۂ آئین کو ختم کر دیا ہے۔ ایسا کوئی اعلان اب تک نہیں ہوا۔ قراردادِ مقاصد اور دوسرے سابق فیصلے اپنی جگہ پر قائم ہیں، البتہ نئی دستوریہ اس اختیار کی حامل ہے کہ کسی چیز کو جوں کا توں قائم رکھے یا اسے منسوخ کر کے اس کا کوئی بدل پیدا کر دے۔ لہٰذا آپ کا سوال بے محل ہے۔
۲۔ میں نے نہ کبھی یہ بات کہی اور نہ میں اس کا کبھی خیال کر سکتا ہوں۔ میرے حج نہ کرنے کے وجوہ مالی مشکلات، بیماری اور بار بار قید ہوتے رہنا ہیں۔ کئی سال سے ارادہ کر رہا ہوں، مگر ان وجوہ میں سے کوئی وجہ مانع ہو جاتی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آئندہ سال حج کرنے کی توفیق بخشے۔
۳۔ آپ کا تیسرا سوال تفصیلی بحث چاہتا ہے، مختصر جواب ممکن نہیں۔ میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ملکی افلاس کو دوسرے حج کے عدم جواز کی دلیل ٹھہرانا غلط ہے۔
۴۔ میرے علم میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے تحریکِ ختمِ نبوت کے سلسلے میں شہید ہونے والوں کی موت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر کسی نے آپ کے سامنے یہ بات کہی ہے تو آپ مجھے اس کا نام بتائیں تاکہ میں اس کی تحقیق اور اس سے باز پرس کر سکوں۔
۵۔ ’’ہزاروں روپے کے ناجائز تصرف‘‘ سے آپ کی مراد غالباً اس گارڈن پارٹی کے مصارف ہیں جو میری آمد کے موقع پر آپ کے شہر کے بعض اصحاب نے دی تھی۔ اگر یہی آپ کی مراد ہے تو یہ کام آپ ہی کے شہر کے کچھ لوگوں نے کیا ہے، اور غالباً آپ ان سے ناواقف نہیں ہیں۔ آپ ان سے بازپرس کریں۔ میرا گناہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف یہ کہ میں نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ کیا آپ کا منشا یہ ہے کہ مجھے جو شخص بھی کھانے یا چائے پر مدعو کرے، میں اس کی دعوت رَد کر دیا کروں؟
۶۔ یہ سوال تو نہیں ہے بلکہ ایک الزام ہے۔ پہلے آپ الزام کی وضاحت فرمائیں کہ تعصب اور تنگ نظری سے آپ کی مراد کیا ہے، پھر اس کا ثبوت دیں کہ یہ چیز جماعتِ اسلامی میں پائی جاتی ہے، تب کہیں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جماعت اس پر کیوں قائم ہے۔ کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ اس تکلیف فرمائی سے پہلے آپ اپنے ضمیر سے یہ سوال کر لیں کہ کہیں آپ خود تو تعصب اور تنگ نظری میں مبتلا نہیں ہیں؟
(ترجمان القرآن جولائی ۱۹۵۵ء)