احادیث کی تحقیق میں اسناد اور تفقہ کا دخل
سوال: خط و کتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اطمینان بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہوسکتی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلہ ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہل حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے اس کی اصلاح و تنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے۔ جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔ باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیونکہ اب سے پہلے بھی اخبار اہل حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب…… میں تفہیمات کے اقتباسات(مسلک اعتدال) سنا سنا کر جماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افراد میں بد دلی پیدا کر رہے ہیں اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میں مزاحمت ہو رہی ہے۔
لیکن اگر یہ مضامین فروعی اور ضمنی حیثیت رکھتے ہیں، جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے تو پھر تفہیمات جیسی اصولی اور اہم کتاب اور مستقل لٹریچر کی صورت میں ان پر افہام و تفہیم کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لیے صرف ترجمان کے صفحات کافی تھے۔ افسوس کہ جس چیز کو آپ فروعی تحریر فرماتے ہیں وہی جماعت کی توسیع کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ خود آپ ہی دستور جماعت کی دفعہ ۵ جز، (د) میں تحریر فرماتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ان تمام بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنا ضروری ہے جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غیر اہم کو اہم بنایا جارہا ہے اور اس کے لیے تفہیمات کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں؟ کیا اس سے بڑھ کر بنیادی اصلا ح کا کام باقی نہ رہا تھا۔
پھر یہاں دو جدا جدا چیزیں ہیں جنہیں مخلوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے فقہی جزئیات کی تعمیل میں کتاب و سنت کے ماتحت مختلف ہونا الگ معاملہ ہے اور اسے برداشت کیا جاسکتا ہے یعنی اس بارے میں بنیادی امور کے اشتراک و اتحاد کے لیے رواداری برتی جاسکتی ہے۔لیکن اصولی طور پر روایت نبوی اور درایت مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابل برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکار حدیث کا مترادف ہوسکتا ہے خود اکابر حنفیہ بھی اس کے قائل نہیں نیز امام ابو حنیفہؒ نے بھی اس قسم کے عقیدہ و خیال سے تبّری اور بیزاری ظاہر کی ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حجتہ اللہ البالغہ اور شامی)۔
اب اس کشمکش کو رفع کرنے کی یہی صورت ہے کہ ’’مسلک اعتدال‘‘ والا مضمون آئندہ تفہیمات کے ایڈیشن میں شائع نہ کیا جائے اور ترجمان القرآن میں ایک مہذب و مودب تنقیدی مضمون کی اشاعت کا موقع مرحمت فرمایا جائے۔ یہ تنقید ہمدردانہ اور جماعتی ترقی کے لیے ہوگی، مخالفانہ اور معاندانہ نہ ہوگی۔ واللہ علیٰ مانقول شہید۔ ترجمان القرآن کی قدیمی وسعت ظرفی اور عالی ہمتی سے اس قسم کی امید وابستہ رکھنا بے جا نہ ہوگا۔‘‘
جواب:میں تو سمجھتا تھا کہ میرے آخری خط سے آپ مطمئن ہوگئے ہوں گے۔ لیکن اب اس عنایت نامہ کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ میں آپ کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ آپ نے اب جو سوال کیا ہے اس کے سلسلہ میں میرا بھی ایک سوال ہے وہ یہ کہ میری کتابوں میں جنہیں آپ مستقل لٹریچر فرماتے ہیں، فروع و جزئیات کے متعلق صرف یہی ایک ’’مسلک اعتدال‘‘ والی بحث آپ کو نظر آئی ہے یا اور بھی کسی مقام پر میں نے جزئیات و فروع سے بحث کی ہے؟ اگر دوسرے مقامات پر بھی ایسی بحثیں ہیں اور یقیناً ہیں تو جزئیات کی فروع سے عدم تعرض اور کلیات و اصول تک تقریرو گفتگو کو محدود رکھنے پر اصرار کی ضرورت آپ کو صرف اسی جگہ کیوں محسوس ہوئی؟
پھر آپ کا یہ ارشاد کہ جزئیات و فروع پر سرے سے میری کتابوں میں بحث ہی نہ ہونی چاہیے، بجائے خود صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ شاید کوئی شخص بھی مجرد کلیات تک اپنی بحثوں کو محدود رکھنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ کبھی کلیات و اصول کی توضیح میں اسے جزئیات سے بحث کرنی ہوگی، کبھی لوگوں کے شکوک شبہات اور استفسارات کے جواب میں اس کی ضرورت پیش آئے گی اور کبھی خود تحقیق مسائل کے سلسلے میں بہت سے جزئیات کو زیر بحث لانا پڑے گا اور جب یہ چیزیں بحث میں آئیں گی تو لامحالہ بہت سے امور ایسے ہوں گے جو کسی نہ کسی گروہ کے مسلک سے مختلف ہوں گے، اس لیے سرے سے آپ کا یہ مطالبہ ہی صحیح نہیں ہے۔
افسوس یہ ہے کہ آپ نے میرے پچھلے خطوط پر غور نہیں کیا میں نے ان میں یہ بات عرض کی تھی کہ اقامت دین کی جدوجہد میں مختلف المسلک جماعتوں کا اکھٹا کرنے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ یا تو مسائل فقہیہ پر تحقیق کی آزادی سب لوگوں سے سلب کرلی جائے یا پہلے ان سارے مسائل کو طے کرکے ایک مسلک کی جماعت بنانے کی کوشش کی جائے۔اس کے بجائے صحیح یہ ہے کہ تحقیق مسائل میں سب کے لیے آزادی رہے اور صرف تحقیق ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کے اظہار و بیان کے لیے بھی آزادی رہے اور کسی کا مسلک کسی پر مسلط نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دستور کی جس وفعہ کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کا منشا وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے، بلکہ اس کا منشا مناظرے اور معرکے بند کرنا ہے۔
میری پچھلی تحریروں سے جو عجیب عجیب معنی آپ نے پیدا کیے ہیں ان پر مجھے افسوس بھی ہے اور حیرت بھی۔ تعجب ہے کہ آپ دوسرے شخص کے مسلک کو سمجھنے کی کوشش کے بجائے خود اپنی بدگمانی سے ایک بات واضع کرکے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ کہ ’’اصولی طور پر روایت نبوی اور درایت مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابل برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکار حدیث کا مترادف ہو سکتا ہے‘‘۔ یقیناً میرے مسلک کی ترجمانی نہیں ہے۔ آپ خود ہی انصاف سے غور کیجیے کہ تفہیمات میں حدیث کے متعلق جو مضامین میں نے لکھے ہیں اور اپنی دوسری کتابوں اور مضامین میں جس طرح میں حدیث سے استدلال و احتجاج کرتا رہا ہوں، کیا ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد میرے متعلق یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے کہ میرا ذرہ برابر بھی کوئی میلان منکرین حدیث کے مسلک کی طرف ہے یا ہوسکتا ہے؟ پھر اگر آپ مجھے مومن یا مسلمان سمجھتے ہیں تو آخر کس طرح آپ نے میرے متعلق یہ گمان کر لیا کہ میں کسی روایت کو فی الحقیقت حدیث رسول اللہﷺ مان لینے کے بعد پھر اس پر کسی کے تفقہ یا اپنے اجتہاد یا کسی امام کے قول کو ترجیح دے سکتا ہوں؟ترجیح تو درکنار، اگر میں دونوں کو مساوی بھی سمجھوں بلکہ اس کا خیال بھی کروں تو مومن کیسے رہ جاؤں گا؟
دراصل آپ لوگ جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اجتہاد و تفقہ کو حدیث رسولﷺ پر ترجیح دیتے ہیں یا دونوں کو ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ نہیں ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہو، اس کی نسبت کا صحیح و معتبر ہونا بجائے خود زیر بحث ہوتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیث رسولﷺ مان لینا ضروری ہے۔ جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ ہم سند کی صحت کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک سند کسی حدیث کی صحت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ ان ذرائع میں سے ایک ہے جن سے کسی روایت کے حدیث رسولﷺ ہونے کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ متن پر غور کیا جائے، قرآن و حدیث کے مجموعی علم سے دین کا جو فہم ہمیں حاصل ہوا ہے اس کا لحاظ بھی کیا جائے اور حدیث کی وہ مخصوص روایت جس معاملے سے متعلق ہے اس معاملے میں قوی تر ذرائع سے جو سنت ثابتہ ہمیں معلوم ہو اس پر بھی نظر ڈالی جائے۔ علاوہ بریں اور بھی متعدد پہلو ہیں جن کا لحاظ کیے بغیر ہم کسی حدیث کی نسبت نبیﷺ کی طرف کردینا درست نہیں سمجھتے۔ پس ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ حدیث رسول اور اجتہاد مجتہد میں مساوات ہے یا نہیں۔بلکہ اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ روایات کے رد و قبول اور ان کے احکام کے استنباط میں ایک محدث کی رائے بلحاظ سند، اور ایک مجتہد کی رائے بلحاظ درایت کا مرتبہ مساوی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ دونوں میں سے کس کی رائے زیادہ وزنی ہے؟ اس باب میں اگر کوئی شخص دونوں کو ہم پلہ قرار دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔ لیکن آپ لوگ اس کو گناہ گار بنانے کے لیے اس پر خواہ مخواہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حدیث کو حدیث رسولﷺ مان لینے کے بعد پھر کسی مجتہد کی رائے کو اس کا ہم پلہ یا اس پر قابل ترجیح قرار دیتا ہے، حالانکہ اس چیز کا تصور بھی کسی مومن کے قلب میں جگہ نہیں پا سکتا۔
محدثین جن بنیادوں پر احادیث کے صحیح یا غلط یا ضعیف وغیرہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کے اندر کمزوری کے مختلف پہلو میں اپنے مضمون ’’مسلک اعتدال‘‘ میں بیان کرچکا ہوں۔ جن امور کو میں نے وہاں نظیر میں پیش کیا ہے وہ بیشتر علامہ ابن عبد البر کی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ آپ براہ کرم مجھے بتائیے کہ فی الواقع کمزوری کے وہ پہلو فن حدیث میں موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو پھر آخر آپ حضرات ہم سے محدثین کی آراء پر ایمان لے آنے کا مطالبہ کیوں اس شدومد سے کرتے ہیں؟ محدثین کو بالکل ناقابل اعتناء تو ہم نے کہا نہیں ہے، نہ کبھی ہم اس کا خیال بھی دل میں لاسکتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس حدیث کی تحقیق میں سب سے پہلے ہم یہی دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے حدیث کا کیا حال ہے اور اس معاملے میں جس پائے کے محدث نے اس کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہو اس کے مرتبہ کے لحاظ سے ہم اس کی رائے کو پوری پوری وقعت بھی دیتے ہیں۔ لیکن فن حدیث کی ان کمزوریوں کی بنا پر جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہم اس امر کا التزام نہیں کر سکتے کہ محض علم روایت کی بہم پہنچائی ہوئی معلومات پر پورا پورا اعتماد کرکے ہر اس حدیث کو ضروری حدیث رسولﷺ تسلیم کرلیں جسے اس علم کی رو سے صحیح قرار دیا گیا ہو۔ آپ ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں جس طرح ہم آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن عدم اتفاق کا یہ نتیجہ تو نہ ہونا چاہئے کہ آپ ہم پر اس جرم کا الزام لگادیں جو فی الواقع ہم نے نہیں کیا ہے۔
آپ اگر ’’مسلک اعتدال‘‘ پر علمی تنقید فرمائیں تومیرے لیے باعث شکر گزاری ہوگا۔ مجھ پر میری غلطی واضح ہوجائے تو مجھے اس سے رجوع کرنے میں ہر گز تامل نہ ہوگا۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ63 ھ ۔ نومبر، دسمبر 44ء)