حدیث اور فقہ
سوال: ذیل میں آپ کے لٹریچر سے چند اقتباسات دربارہ مسئلے تقلید و اجتہاد و مرتب کرکے کچھ استفسارات کئے جاتے ہیں۔ان سے صرف علمی تحقیق مقصود ہے، بحث مدعا نہیں ہے:
۱۔ ’’تمام مسلمان چاروں فقہوں کو برحق مانتے ہیں۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملے میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے علماء نے طے کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک ہی پیروی کرنی چاہئے۔‘‘ (رسالہ دینیات طبع دوم ۱۲۵)
۲۔ ’’پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جس حدیث کو وہ (یعنی محدثین) صحیح قرار دیتے ہیں وہ حقیقت میں صحیح ہے؟صحت کا کامل یقین تو خود ان کو بھی نہ تھا۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کاظن غالب ہے۔ مزید برآں یہ ظن غالب جس بنا پر ان کو حاصل ہوتا تھا وہ بلحاظ روایت تھا نہ کہ بلحاظ درایت۔ ان کا نقطہ نظر زیادہ تر اخباری تھا ۔ فقہ ان کا اصل موضوع ہی نہ تھا۔ اس لئے فقیہانہ نقط نظر سے احادیث کے متعلق رائے قائم کرنے میں وہ فقہائے مجتہدین کی بہ نسبت کمزور تھے۔ پس ان کے جائز کمال کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ احادیث کے متعلق جو کچھ بھی تحقیقات انہوں نے کی ہے اس میں دوطرح کی کمزوریاں موجود ہیں ایک بلحاظ اسناد، دوسرے بلحاظ تفقہ سے تفہیمات مضمون مسلک اعتدال۔‘‘
۳۔’’ اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ رجال کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کرنے میں محدثین کے اپنے جذبات کا بھی کسی حد تک دخل ہوجائے۔‘‘(ترجمان القرآن۔ جلد۱۰، عدد۱۱۰)
۴۔ رہا فقیہانہ نقطہ نظر تو وہ ان کے موضوع خاص سے ایک حد تک غیر متعلق تھے۔ اس لئے اکثر وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔‘‘…… ’’اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا کہ ایک روایت کو انہوں نے صحیح قرا دیا ہے، حالانکہ معنی کے لحاظ سے وہ زیادہ قابل اعتبار نہیں اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں، حالانکہ وہ معنی صحیح ہے۔‘‘ …… ’’مگر جو لوگ شریعت میں نظر رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محدثانہ نقطہ نظر فقیہانہ نقطہ نظر سے بارہا ٹکرا گیا اور محدثین کرام صحیح احادیث سے بھی احکام و مسائل کے استنباط میں وہ اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں جو فقہاء و مجتہدین نے ملحوظ رکھا ہے۔ روایت کو بالکلیہ رد کرنا بھی غلطی ہے اور روایات پر ہی اعتماد کرنا بھی غلطی ہے بلکہ مسلک حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہی وہ مسلک ہے جو آئمہ مجتہدین نے اختیار کیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ میں آپ بکثرت ایسے مسائل دیکھیں گے جو مرسل اور مفصل اور منقطع احادیث پر مبنی ہیں یا جن میں ایک قوی الاسناد حدیث کو چھوڑ کر ضعیف الاسناد کو قبول کر لیا گیا ہے۔ یا جن میں احادیث کچھ کہتی ہیں اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کچھ کہتے ہیں۔‘‘
اب ان اقتباسات کو سامنے رکھ کر میرے حسب ذیل سوالات پر روشنی ڈالئے:
ا۔مسلمان کا چاروں فقہوں کو ماننا کس نص کے ماتحت ہے؟
ب۔ اسناد حدیث اور تفقہ مجتہدین میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے؟
ج۔ تفقہ مجتہد اور اسناد حدیث میں سے کس میں زیادہ ظنیت ہے؟
د۔ محدث و فقہ ایک ہی آدمی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ر۔ کوئی نظیر بتائیں کہ امام ابو حنیفہ نے متن کو ملحوظ رکھ کر ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا اور قوی الاسناد کوچھوڑا ہو۔
س۔ کیا یہ قول آئمہ کہ ان کے فیصلوں کے مقابلے میں قوی الاسناد حدیث ہی قابل قبول ہے، صحیح ہے؟
ص۔درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کردیا جائے؟ نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟
ط۔ کیا کسی مسلمان کو یہ حق ہے کہ خدا اور رسول کا حکم ظن غالب کے بموجب اسے پہنچے اور اس میں درایت کی مداخلت کرکے اس سے گریز کرے اور اپنے تفقہ کی بنا پر اس کی مخالفت کرے، جبکہ اس کے تفقہ میں بھی خطا کا امکان ہے؟‘‘
جواب: ا۔ چاروں فقہوں کا برحق ماننا کسی نص کے ماتحت نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ چاروں فقہی مذاہب کتاب و سنت سے استنباط کرنے میں ان اصولوں کو اختیار کرتے ہیں جن کے لئے شریعت میں گنجائش اور بنیاد موجود ہیں۔ چاہے جزئی امور میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف ہو، اور جزئی امور میں ان سے اختلاف کرنے کے لئے کسی کے پاس کتنے ہی معقول وجوہ موجود ہوں، لیکن اصولاً استنباط احکام کے وہی طریقے ان مذاہب میں استعمال کئے گئے ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور جن سے خود صحابہ کرام ؓ نے استنباط مسائل میں کام لیا تھا۔
ب۔ اسناد حدیث اور تفقہ مجتہد میں سے کسی کو کسی پر مطلقاً تفوق نہیں دیا جا سکتا۔اسناد حدیث اس بات کی ایک شہادت ہے کہ جو روایت نبی کریمﷺ سے ہم کو پہنچ رہی ہے، وہ کہاں تک قابل اعتبار ہے۔ اور تفقہ مجتہد ایک ایسے شخص کی فیصلہ کن رائے (Judgement) ہے جو کتاب وسنت میں گہری بصیرت رکھنے کے بعد ایک رپورٹ کے متعلق اندازہ کرتا ہے کہ وہ کہاں تک قابل قبول ہے اور کہاں تک نہیں، آیا اس رپورٹ سے جو معنی اخذ ہوتے ہیں وہ نظام شریعت میں کہاں تک نصب(Fit) ہوسکتے ہیں اور کہاں تک غیر متناسب(Unfit) ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں، جس طرح عدالت میں شہادتیں اور جج کا فیصلہ دونوں کی الگ حیثیت ہے۔ یعنی نہ مطلقاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جج کا فیصلہ شہادتوں پر برحال مقدم ہے اور نہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ شہادتیں ضرور جج کے فیصلہ پر مقدم ہوتی ہیں، اسی طرح محدث کی شہادت اور فقیہ کی اجتہادی تحقیق دونوں میں کسی کو بھی مطلقاً دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
ج۔ تفقہ مجتہد میں بھی خطا کا امکان ہے اور اسناد حدیث میں بھی۔ پس میرے نزدیک لازم ہے کہ ایک ذی علم آدمی مجتہدین کے اجتہادات اور احادیث کی روایات دونوں میں نظر کرکے حکم شرعی کی تحقیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حکم شرعی کی خود تحقیق نہیں کرسکتے تو ان کے لئے یہ بھی صحیح ہے کہ کسی عالم کے اوپر اعتماد کریں اور یہ بھی صحیح ہے کہ جو مستند حدیث مل جائے اس پر عمل کریں۔
د۔ ایک آدمی بیک وقت محدث اور فقیہ ہوسکتا ہے اور ایسا شخص نرے محدث یا نرے فقیہ کے مقابلے میں اصولاً قابل ترجیح ہے۔ لیکن میرا یہ جواب صرف اصولی حیثیت سے ہے۔ کسی شخص خاص پر اس کا انطباق کرنے میں لازماً یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا تفقہ میں اس کا وہی مرتبہ ہے جو حفظ حدیث میں ہے۔
ر۔ اس وقت میرے پیش نظر مطلوبہ نظیر نہیں ہے اور ویسے بھی نظیریں پیش کرنے سے بحث کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔
س۔ آئمہ مجتہدین نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں۔ لیکن میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات صحیح الاسناد حدیث متن کے اعتبار سے کمزور پہلو رکھتی ہے اور کتاب و سنت سے جو دوسری معلومات ہم کو حاصل ہوئی ہیں ان کے ساتھ اس کا متن مطابقت نہیں رکھتا ایسے حالات میں ناگزیر ہوجاتا ہے کہ یا اس حدیث کی تاویل کی جائے اور یا اسے رد کیا جائے۔
ص۔ درایت سے مراد وہ فہم دین ہے جس کو قرآن مجید میں ’’حکمت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ حکمت شریعت کی صحیح پیروی کیلئے وہی درجہ رکھتی ہے جو درجہ ’’حذاقت‘‘ کا فن طب میں ہے۔ جن لوگوں نے اس میں سے کم حصہ پایا ہو یا جنہیں اس کی قدرو قیمت کا احساس نہ ہو ان کیلئے تو یہی مناسب ہے کہ جیسا لکھا پائیں ویسا ہی عمل کریں۔لیکن جنہیں اس میں سے کچھ حصہ ملا ہو وہ اگر اس بصیرت سے جو انہیں اللہ کے فضل سے کتاب و سنت میں حاصل ہوئی ہو، کام نہ لیں تو میرے نزدیک گناہ گار ہوں گے۔
میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے میں آپ کو حکمت اور فقہ اور فہم دین کا کوئی ایسا معیار بتا سکوں جس پر آپ ناپ تول کو دیکھ لیں کہ کسی نے ان میں سے حصہ پایا ہے یا نہیں اور پایا تو کتنا پایا ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے طبیب کی حذاقت کا، جوہری کی جوہر شناسی کا اور کسی صاحب فن کی فنی مہارت کا کوئی نپا تلا معیار مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اس چیز کے حدود معین نہ کئے جاسکنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ چیز سرے سے لاشے ہے یا شریعت میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ط۔- اس سوال کا جواب اوپر کے جوابات میں ضم ہے۔ صرف اتنا اور کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ درایت کے استعمال میں خطا کا امکان ہے،لیکن ایسا ہی امکان کسی حدیث کو صحیح اور کسی کو ضعیف اور کسی کو موضوع قرار دینے میں بھی ہے۔ اگر کوئی مسلمان درایت کے استعمال میں غلطی کرکے مجرم ہوجاتا ہے تو وہ احادیث کے مرتبہ کا تعین کرنے میں غلطی کرکے بھی ویسا ہی مجرم ہوگا۔ حالانکہ شریعت انسان کی استعداد اور اس کی ممکنات کی حد تک ہی بار ڈالتی ہے اور اسی حد تک اسے مسؤل قرار دیتی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال 63 ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)