اختلافی مسائل پر امت سازی کا فتنہ
سوال: ’’مجھے مذہبی تنازع اور تفرقہ سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزئی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش خود شریعت میں موجود ہے ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں۔ اسی طرح اگر نبی کریمﷺ سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہائے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حد کے اندر شمار کرتا ہوں۔ مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں، کبھی اس پر اور کبھی اس پر۔ مجھے اپنے مسلک پر پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اسے اختیار کیا ہے مگر میرے والد مکرم، جو جماعت اسلامی کے رکن بھی ہیں، محض نماز میں رفع یدین کا التزام چھوڑ دینے کی وجہ سے انہوں نے مجھے یہ نوٹس دے دیا ہے کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر ہمارے تمہارے درمیان سلام کلام کا تعلق برقرار نہیں رہ سکتا۔ میں نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اب یہ قضیہ میرے اور والد مکرم کے حلقہ تعارف میں بحث کا موضوع بن گیا ہے اور دونوں کی تائید و تردید میں لوگ زورِ استدلال صرف کر رہے ہیں۔
مجھ پر جو بے سروپا اعتراضات عموماً ہورہے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے، تو حنفی ہوگیا۔ تیرا دو طریقوں پر عمل کرنا دو عملی اور نفاق ہے۔ تم جماعت کی اکثریت سے مرعوب ہوگئے ہو۔ تمہارا اصل مقصود جلبِ زر اور حصول عزت ہے، تمہیں احناف نے یہ پٹی پڑھائی ہے۔ تو مودودی صاحب کا مقلد ہے وغیرہ۔
ان اعتراضات میں ایک دلچسپ ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہی مودودی صاحب سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے نام پر اہل حدیث کو حنفی بنا کر رہیں گے۔ چنانچہ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ یعنی پہلے تو اس جماعت میں آنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا فقہی مسلک جماعت میں آنے کے بعد بھی برقرار رہے گا۔ مگر جماعت میں آنے کے بعد ایسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو خود کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور اس کا مسلک سراسر بدل جاتا ہے۔
میں حسب موقع ان سب اعتراضات کے جواب دیتا رہا ہوں لیکن پھر بھی اپنے اطمینان کے لیے امور ذیل کی وضاحت چاہتا ہوں۔
۱۔ والدین کے حقوق کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ کیا وہ اولاد سے مسائل کی تحقیق کا اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنے کا حق بھی سلب کرسکتے ہیں؟کیا میں والدین کی مرضی کے خلاف مسلک اہل حدیث کی خلاف ورزی(یعنی ترک رفع یدین) کرنے پر سخط الرب فی سخط الوالدین کی وعید کا مستوجب ہوجاؤں گا؟
۲۔ ازروئے شریعت نماز میں رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیا ترک رفع سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟
۳۔کیا جماعت اسلامی کا ایک رکن دوسرے رکن سے اس بنا پر مقاطعہ کر سکتا ہے کہ اس نے مزعومہ مسلک اہل حدیث کی خلاف ورزی کی ہے؟‘‘
جواب: جس نزاع کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا حال پڑھ کر مجھے بہت رنج ہوا۔ مجھ کو اس بات کی ہر گز توقع نہ تھی کہ جماعت اسلامی میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو فقہی مسائل میں تعصب اور تشدد کی اس حد کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔ اگر آپ جیسا قابل اعتماد آدمی ان حالات کا راوی نہ ہوتا اور ایک دوسری اطلاع سے آپ کے بیان کی تائید نہ کی گئی ہوتی تو شاید میں اس بات کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا کہ واقعی ہماری جماعت میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہوگی۔ بہرحال اب کہ اس نزاع نے سر اٹھاہی لیا ہے، میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کی اصولی، فقہی اور جماعتی حیثیت کو صاف صاف واضح کردوں۔
۱۔اصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یا گروہ کا کسی خاص طریق و تحقیق و استنباط یا کسی مخصوص مذہب فقہی کی پیروی کرنا اور چیز ہے اور اس کا اپنے خاص طریقہ یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور اس کی بنا پر جتھہ بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغایرت و منافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویا ان کے دین میں کوئی نقص آگیا ہے،بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری گنجائش ہے، بلکہ خود صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونما نہیں ہوتی۔لیکن دوسری چیز بعینٖہ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے، اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں، پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ امتیں بنتی ہیں، پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قدر الجھتے اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے امت مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد (یعنی اعلائے کلمتہ اللہ) اور اقامت دین کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیر ممکن ہوجاتا ہے۔
مسلک فقہی کے اعتبار سے کسی کا طریق اہل حدیث یا طریق حنفی یا طریق شافعی وغیرہ پر چلنا بجائے خود کسی قباحت کا موجب نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ چیز آگے بڑھ کر یہ صورت اختیار کرلے کہ مسلمان فی الحقیقت ایک امت نہ رہیں، بلکہ اہل حدیث، احناف، شوافع وغیرہ ناموں کے ساتھ الگ الگ مستقل امتیں بن جائیں، اور شرعی اعمال کی جو خاص صورتیں ان مختلف گروہوں نے اختیار کی ہیں وہ ہر ایک گروہ کے مخصوص شعائر قرار پاجائیں جن کی بناپر ان گروہوں میں مغائرت اور امتیاز واقع ہو، تو پھر یقیناً یہ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دین اسلام میں اس تقسیم اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ رفع یدین کرنا یا نہ کرنا۔ آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا، اور ایسے ہی دوسرے امور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بنا پر اختیار کرے کہ اس کی تحقیق میں صاحب شریعت سے ایسا ہی ثابت ہے۔ یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بنا پر ارجح اور اولیٰ ہے۔ مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعار بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقہ میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انہی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کون غیر تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا یا آمین زور سے کہنا یا ایسے ہی دوسرےامور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں۔ اس لیے کہ سنت رسول اللہ میں بجائے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائر بنایا جائے۔ ایسا کرنا دراصل حدیث کا نام لے کر صاحب حدیث علیہ السلام کے منشاء کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے نبیﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔
۲۔ اب اس مسئلہ کی فقہی حیثیت کو لیجیے۔ رفع یدین کے متعلق نبیﷺ سے پانچ مختلف طرز عمل منقول ہیں:
ا۔ ابن عمرؓ کی روایت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور تین مواقع پر رفع یدین کرتے تھے۔ افتتاح صلوٰۃ کے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھ کر۔
ب۔ مالک بن حویرث کی روایت جس میں دو موقعوں پر رفع یدین کا ذکر ملتا ہے۔ افتتاح صلوٰۃ کے وقت اور رکوع سے اٹھ کر۔
ج۔ وائل بن حجر کی روایت، جس میں چار مواقع پر اس کا ہونا مذکور ہے۔ افتتاح صلوٰۃ کے وقت۔ رکوع میں جاتے ہوئے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے۔ سجدہ کے موقع پر۔
د۔ ابو حمید ساعدی کی روایت۔ اس میں بھی چار مواقع پر رفع یدین کا ذکر ہے، مگر چوتھا موقع سجدہ کے بجائے تیسری رکعت میں قعدہ سے اٹھنے پر بیان کیا گیا ہے۔
ر۔عبداللہ ابن مسعود اور براء ابن عازب کی روایت جس میں صرف ایک مرتبہ رفع یدین کرنے کا ذکر ہے، یعنی افتتاح صلوٰۃ کے موقع پر۔
ان مختلف روایات میں سے(۱) کو امام شافعی، احمد اور ابو ثور نے،نیز اہل الحدیث اور اہل الظاہر کی اکثریت نے اختیار کیا اور ایک روایت امام مالک سے بھی یہی ہے کہ وہ اس کو ترجیح دیتے تھے (د) کو اہل الحدیث کے ایک گروہ نے مرجح ٹھہرایا۔ اور (ر) کو ابراہیم نخعی، شعبی، سفیان ثوری، ابو حنیفہ اور تمام فقہائے کوفہ نے ترجیح دی۔ لیکن یہ واضح رہے کہ سوال صرف ترجیح کا ہے نہ کہ ردو قبول کا۔ آئمہ سلف میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جن مختلف طریقوں کا ذکر مذکورہ بالا احادیث میں آیا ہے ان میں سے کسی پر حضور اکرمﷺ نے عمل نہیں کیا تھا۔ بلکہ کہتے صرف یہ ہیں کہ جس خاص طریقہ کو ہم نے مرجح قرار دیا ہے وہ حضور اکرمﷺ کا عام معمول تھا اور دوسرے طریقوں پر آپ کبھی کبھی عمل کر لیتے تھے۔پس جب معاملہ کی حقیقت یہ ہے تو ان طریقوں میں سے جس پر بھی کوئی عمل کررہا ہے، حدیث ہی کی پیروی کر رہا ہے اور اس پر نکیر کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اتباع پیغمبر پر نکیر کی جاتی ہے جس کی جرأت مقلدین کو بھی زیبا نہیں کجا کہ اہل حدیث اس کا ارتکاب کریں۔ پھر اگر کوئی شخص ان طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ پر جامد ہونے کے بجائے وقتاً فوقتاً ان سب طریقوں پر عمل کرتا رہے جو حدیث میں مذکور ہیں تو یہ نبیﷺ کی زیادہ صحیح و مکمل پیروی ہوگی، اور لفظ عمل بالحدیث کا اطلاق اس طرز عمل پر زیادہ صحیح معنی میں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ابتدا ہی میں ایک طریقہ کو ترجیح دینے اور باقی سب طریقوں کو ترک کردینے کے بجائے ان سب طریقوں کو نماز میں اختیار کرنے کی گنجائش رکھی جاتی تو شاید بعد کے ادوار میں وہ جمود و تعصب پیدا ہی نہ ہوتا جس کی بدولت نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ نماز کی جس صورت کے عادی ہیں اس سے ذرا سی بھی مختلف صورت بھی جہاں انہوں نے دیکھی اور بس وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس شخص کا دین بدل گیا ہے اور یہ ہماری امت سے نکل کر دوسری امت میں جا ملا ہے۔
یہ رائے جو میں عرض کر رہا ہوں یہ صرف میری انفرادی رائے ہی نہیں ہے بلکہ پہلے بھی متعدد اہل تحقیق اسی خیال کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس وقت میرے پاس سفر میں کتابیں موجود نہیں ہیں اس لیے میں زیادہ وسیع پیمانہ پر شواہد پیش نہیں کرسکتا، لیکن حجتہ البالغہ خوش قسمتی سے مل گئی ہے اس سے چند حوالے یہاں نقل کرتا ہوں۔شاہ صاحب پہلے تو یہ اصولی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ:
الاصل ان یعمل بکل حدیث الا ان یمتنع العمل بالجمیع للتناقض (باب القضاء فی الاحادیث الختلفہ)
اصولی بات یہ ہے کہ آدمی ہر حدیث پر عمل کرے، الایہ کہ کسی مسئلہ میں سب حدیثوں پر عمل کرنا تناقض کی وجہ سے غیر ممکن ہو۔
پھر آگے چل کر فصل فی عدۃ اُمور مشکلہ من التقلید و اختلاف المذاہب میں فرماتے ہیں:
ان اکثر صورالا ختلاف بین الفقہاء لاسیما فی المسائل التی ظہر فیھا اقوال الصحابۃ فی الجانبین کتکبیرات التشریق و تکبیرات العید ین و نکاح لمحرم و تشہد ابن عباس و ابن مسعود والاخفاء بانبسملۃ وباٰمین والا شفاع والایتار فی الاقامۃ و نحو ذالک، انما ھو فی ترجیح احد القولین و کان السلف لا یختلفون فی اصل المشروعیۃ وانما کان خلافہم فی اولی الامرین و نظیرہ اختلاف القرآء فی وجوہ القرأۃ وقد عللوا کثیراً من ھذا لباب بان الصحابۃ مختلفون وانہم جمیعًا علی الھدیٰ۔
واقعہ یہ ہے کہ فقہا کے درمیان اختلاف کی اکثر صورتیں، بالخصوص ان مسائل میں جن میں صحابہ کے اقوال دونوں طرف پائے جاتے ہیں، مثلاً تکبیرات تشریق، تکبیرات عیدین، نکاح محرم، تشہد ابن عباس و ابن مسعود بسم اللہ اور آمین کا اخفاء، تکبیر اقامت میں کلمات کو ایک ایک مرتبہ یا دو دو مرتبہ پڑھنا ان میں اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ دو اقوال میں سے کس کو کس پر ترجیح ہے۔ ورنہ ان مختلف طریقوں کے بجائے خود مشروع ہونے میں سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ ان کا اختلاف تو صرف اس اعتبار سے تھا کہ دو مختلف امور میں سے اولیٰ کون سا ہے، اور یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے قرأت کی مختلف صورتوں میں قاریوں کے درمیان اختلاف ہے۔اس معاملے میں بیشتر امور کے اختلاف کی وجہ سلف نے یہ بتائی ہے کہ صحابہ کرامؓ خود ان میں مختلف تھے اور ظاہر ہے کہ صحابہ سب کے سب ہدایت پر تھے۔
پھر باب اذکار الصلوٰۃ وھیئآ تھا المندوب الیھا میں فرماتے ہیں:
وھو (ای رفع الیدین) من الہیئآت وفعلہ النبیﷺ مرۃ و ترکہ مرۃ والکل سنۃ واخذ بکل واحد جماعۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعد ھم وھذا احد المواضع التی اختلف فیہا الفریقان اہل المدینۃ والکوفۃ ولکل واحد اصل اصیل والحق عندی فی مثل ذالک ان الکل سنۃ۔
اور وہ(یعنی رفع یدین) نماز کی ان ہیئتوں میں سے ہے جن کو نبیﷺ نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا۔اور یہ دونوں طریقے سنت ہیں، صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے ایک ایک جماعت نے ان میں سے ایک ایک طریقے کو اختیار کیا ہے اور یہ من جملہ ان معاملات کے ہیں جن میں اہل مدینہ اور اہل کوفہ کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن ہر ایک کے لیے ایک ثابت شدہ اصل شریعت میں موجود ہے اور ایسے مسائل میں میرے نزدیک حق یہ ہے کہ سب مختلف طریقے سنت ہیں۔
شاہ صاحب کی ان تصریحات کے بعد اس امر کی ضرورت نہیں رہتی کہ میں آمین کے مسئلہ کے متعلق الگ بحث کروں۔ تاہم اس معاملے میں صاحب الجواہر النقی کا یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتا ہوں کہ:
والصواب ان الخبرین بالجہر بہا والمخافتہ صحیحان وعمل بکل من فعلیہ جماعۃ من العلماء۔
۳۔ ہماری جماعت کا ان اختلافی معاملات میں جو مسلک ہے اس کی توضیح اس سے پہلے بارہا کی جا چکی ہے، اور میں اب ایک مرتبہ پھر اسے صاف صاف الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ اس جماعت میں اہل حدیث، احناف، شوافع اور ایسے ہی دوسرے فقہی طریقوں پر چلنے والے مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے فقہی مسلک پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے، بشرطیکہ وہ ان مسلکوں میں سے کسی کے لیے متعصب نہ ہوں اور ان اختلافات کو مغائرت اور جتھہ بندی کا ذریعہ نہ بنائیں۔جماعت کے اندر جو لوگ بھی شامل ہوں انہیں اسلامی عصبیت کے سوا اور ساری عصبیتیں اپنے اندر سے نکالنی ہوں گی خواہ وہ وطنی عصبیتیں ہوں، نسلی ہوں، طبقاتی ہوں یا گروہی۔ ان کو محبت اور دوستی کے رشتہ میں جوڑنے والی چیز اسلام کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ اور ان کے اندر غصہ و نفرت کو بھڑکانے والی بھی اسلام سے دوری کے سوا کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ کسی رکن جماعت کے لیے کسی دوسرے شخص کا اہل حدیث یا حنفی یا شافعی مسلک پر ہونا یا اختیار کرلینا نہ تو سبب محبت ہی ہو اور نہ سبب نفرت۔ اس لازمی و ضروری شرط کے ساتھ اہل حدیث، اہلحدیث رہتے ہوئے اور حنفی حنفی رہتے ہوئے اور شافعی شافعی رہتے ہوئے جماعت اسلامی کا رکن ہوسکتا ہے۔ لیکن جو شخص کسی مخصوص فقہی مذہب کے لیے متعصب ہو، اور اپنے مذہب کے پیروؤں سے محبت اور دوسرے طریقے والوں سے نفرت رکھتا ہو، اور حنفی، شافعی یا اہل حدیث ہوجانے کو جرم سمجھتا ہو اس کے لیے ہماری جماعت میں کوئی جگہ نہیں۔
۴۔ میرے متعلق اس نزاع کے سلسلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر میں صبر کرتا ہوں اور ان لوگوں کے معاملے کو خدا پر چھوڑتا ہوں جنہوں نے بغیر علم و تحقیق کے بد گمانی لوگوں میں پھیلائی کہ میں اہل حدیث کو حنفی بنانے کی سازش کررہا ہوں۔ کاش وہ لوگ جو فقہی جزئیات میں کتاب و سنت کی پیروی پر بڑا زور دیا کرتے ہیں، اخلاقی معاملات میں بھی کتاب وسنت کی کچھ پیروی کر لیا کریں۔
۵۔ آپ کے والد ماجد نے اس قضیہ میں جو رویہ اختیار کیا ہے اس کی دو حیثیتیں ہیں ایک رکن جماعت ہونے کی حیثیت اور دوسری آپ کے والد ہونے کی حیثیت، جہاں تک پہلی حیثیت کا تعلق ہے اس پر میں نمبر۳ میں روشنی ڈال چکا ہوں لہٰذا وہ براہ کرم اپنے متعلق فیصلہ کرلیں کہ آیا وہ اپنے رویہ کو بدلنا پسند فرماتے ہیں یا جماعت سے علیحدگی۔رہی دوسری حیثیت، تو اس کے متعلق میں مختصر طور پر صرف یہ کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ جہاں تک اصول دین کا تعلق ہے، والدین کو نہ صرف یہ حق ہے بلکہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اعتقادی ضلالت یا اخلاقی فساد سے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن جہاں تک فقہی معاملات کا تعلق ہے، والدین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اولاد کو اپنے مسلک خاص کی پیروی پر مجبور کریں۔ خصوصاً جبکہ اولاد صاحب علم ہو اور تحقیق کی بنا پر والدین سے مختلف کسی دوسرے مسلک فقہی کو اختیار کرنا چاہے تو والدین کے لیے یہ مطالبہ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے خلاف عمل کرے۔اس معاملے میں سلف کا صحیح اتباع یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کو تحقیق کی آزادی اور اپنی تحقیق پر عمل کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ اس حق کو سلب کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر ایک شخص اہل حدیث یا حنفی یا شافعی ہو تو وہ اپنی آئندہ نسل کو بھی اہل حدیث، حنفی یا شافعی بنانے پر اصرار کرے گا اور دو چار پشتیں گزر جانے کے بعد یہ طریقے محض فقہی مسلک نہ رہیں گے بلکہ نسلی امتیں بن جائیں گے جن میں تعصب ہوگا، جمود ہوگا اور آبائی مسلک سے ہٹنا ارتداد کا ہم معنی قرار پائے گا۔ آپ خود اپنے والد ماجد ہی سے دریافت فرمائیں کہ آیا وہ اپنی آئندہ نسل کو اسی فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں؟
(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان 64 ھ ۔ جولائی، اگست 45ء)