اسلام اور آلات موسیقی
سوال: ۱۔ کیا آلات موسیقی بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز ہے؟
۲۔ کیا شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا ناجائز ہیں؟ نیز تفریحاً ان کا استعمال کیسا ہے؟
۳۔اگر جواب نفی میں ہو تو ایسے لوگوں کے لیے کیا حکم ہے جو خود ان کا استعمال نہیں کرتے لیکن ایسے تعلق داروں کے ہاں بخوف کشیدگی چلے جاتے ہیں۔ جو آلات موسیقی کا استعمال کرتے ہیں؟
۴۔ کیا ہمارے لیے ایسے نکاح میں شامل ہونے کی اجازت ہے جہاں آلات موسیقی کا استعمال ہو رہا ہو؟
۵۔ آلات لہو کے حامیوں کا خیال ہے کہ چونکہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں دف ہی ایک موسیقی کا آلہ عرب میں رائج تھا، اور آپ نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں دف کی اگر متعدد ترقی یافتہ شکلیں مستعمل ہو گئی ہیں تو ان کا استعمال کیوں نہ روا ہو؟
6- کیا دف آلات لہو میں شامل ہے؟
جواب: ۱۔ حدیث میں آتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا’’میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو نبی اس کام کے لیے بھیجا گیا ہو اس کے پیرو انہی آلات کو بنانے اور بیچنے اور بجانے کے لیے اپنی قوتیں استعمال کریں۔
۲۔ شادی بیاہ ہو یا کچھ اور، باجے بجانا کسی حال میں درست نہیں۔ حدیث میں جس حد تک اجازت پائی جاتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ شادی اور عید کے موقع پر دف کے ساتھ کچھ گا بجا لیا جائے۔
۳۔یہ محض ایمان کی کمزوری ہے کہ آدمی اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ناراضگی سےڈر کر ایک ناجائز کام میں حصہ لے۔ رسولﷺ اور اصحاب رسولﷺ کے ساتھ جو لوگ اپنا حشر چاہتے ہوں ان کے لیے تو یہی مناسب ہے کہ ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ رکھیں جنہیں احکام شریعت کی پروا نہیں۔ ورنہ جن کو ان لوگوں کے تعلقات زیادہ عزیز ہیں، انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاجرین اور صالحین کے ساتھ بیک وقت تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ جب تمہاری دنیا فاجروں کے ساتھ ہے۔ تو آخرت میں بھی انہیں کا ساتھ نصیب ہوگا۔
4۔جواب نمبر۳ ملاحظہ ہو۔ مگر یہ خیال رہے کہ مجلس نکاح میں جبکہ ایجاب و قبول ہو رہا ہو اور منکرات و فواحش کی نمائش نہ ہو رہی ہو شرکت کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ اولیٰ یہ ہے کہ شرکت کی جائے اور جب موسیقی شروع ہو تو نہایت نرمی و شرافت کے ساتھ یہ کہہ کو دوستوں اور عزیزوں سے رخصت چاہی جائے کہ جہاں تک تمہارے جائز کاموں کا تعلق ہے ہم تمہاری مسرت میں شریک ہیں اور جہاں تک ناجائز کاموں کا تعلق ہے۔ ہم ان میں نہ خود شریک ہونا پسند کرتے ہیں نہ یہ گوارا کرتے ہیں کہ تم ان خرابیوں میں مبتلا ہو۔
۵۔یہ محض غلط ہے کہ دف کے سوا اس زمانہ میں اور کوئی دوسرا آلہ موسیقی نہ تھا۔ ایران اور روم اور مصر کی تمدنی تاریخ اور خود عرب جاہلیت کی تمدنی تاریخ سے جو شخص جاہل محض ہو وہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔ متعدد باجوں کے نام تو خود اشعار جاہلیت میں ملتے ہیں۔
6 ۔دف کا نام اگر آلات موسیقی میں شامل ہو بھی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبی کریمﷺ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے جہاں تک، آدمی جاسکتا ہے۔ اس آخری حد کو جو شخص نقطہ آغاز بنانا چاہتا ہو اس کو آخر کس نے مجبور کیا ہے کہ خواہ مخواہ اس نبیﷺ کے پیروں میں اپنا نام لکھوائے جو آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر63ھ۔ جنوری، فروری 44ء)