ڈاڑھی کی مقدار کا مسئلہ
سوال: ڈاڑھی کی مقدار کے عدم تعین پر ’’ترجمان‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے مجھے تشویش ہے، کیونکہ بڑے بڑے علماء کا متفقہ فتویٰ اس پر موجود ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت بھر لمبی ہونی چاہیے اور اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے۔ آپ آخر کن دلائل کی بنا پر اس اجماعی فتویٰ کو رد کرتے ہیں۔
جواب: یہ تو انہی علماء سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے پاس مقدار کے تعین کے لیے کیا دلیل ہے؟ اور خصوصاً ’’فسق‘‘ کی وہ آخر کیا تعریف کرتے ہیں جس کی بنا پر ان کی تعین کردہ مقدار سے کم ڈاڑھی رکھنے والے پر فاسق کا اطلاق ہو سکتا ہے؟مجھے سخت افسوس ہے کہ بڑے بڑے علماء خود حدود شرعیہ کو نہیں سمجھتے اور ایسے فتوے دیتے ہیں جو صریحاً حدود شرعیہ سے متجاوز ہیں۔
ڈاڑھی کے متعلق شارع نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ علماء نے جو حد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بہرحال ایک استنباطی چیز ہے اور کو کوئی استنباط کیا ہوا حکم وہ حیثیت حاصل نہیں کرسکتا جو نص کی ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اگر فاسق کہا جا سکتا ہے تو صرف حکم منصوص کی خلاف روزی پر کہا جاسکتا ہے۔ حکم مستنبط کی خلاف ورزی (چاہے استنباط کیسے ہی بڑے علماء کا ہو) فسق کی تعریف میں نہیں آتی، ورنہ اسے فسق قرار دینے کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ استنباط کرنے والوں کی بھی شریعت میں وہی حیثیت ہے جو خود شارع کی ہے۔
سوال: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم تھی؟
جواب: اسماء الرجال اور سیرت کی کتابوں میں تلاش کرنے سے مجھے بجز دو تین صحابیوں کے کسی کی ڈاڑھی کی مقدار نہیں معلوم ہوسکی ہے۔ صحابہ کے حالات پر صفحے کے صفحے لکھے گئے ہیں مگر ان کے متعلق یہ نہیں لکھا گیا کہ ان کی ڈاڑھی کتنی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف میں یہ مقدار کا مسئلہ کتنا غیر اہم اور ناقبل توجہ تھا۔ حالانکہ متاخرین میں جس شدت سے اس پر زور دیا جاتا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید مومن کی سیرت و کردار میں پہلی چیز جس کی جستجو ہونی چاہیے وہ یہی ہے کہ اس ڈاڑھی کا طول کتنا ہے۔
سوال: ڈاڑھی کی مقدار کے عدم تعین کا جو مسئلہ جماعت اسلامی میں پھیل نکلا ہے، اس کے ماتحت بعض رفقاء نے اپنی ڈاڑھیاں پہلے سے چھوٹی کرالی ہیں اور اب ان خشخشی ڈاڑھیوں کے متعلق یہ خدشہ ہے کہ کہیں’’احمدی ڈاڑھی‘‘ کی طرح ان کا بھی کوئی فرقی نام نہ پڑجائے اور عوام کے لیے یہ چیز فتنہ ثابت نہ ہو۔ چونکہ علماء کا متواتر تعامل مشت بھر ڈاڑھی رکھنے کا ہے، اس وجہ سے میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں بھی اس کا التزام کرنا چاہیے۔
جواب: آپ کا قلب جس چیز پر گواہی دے آپ کو خود اس پر عمل کرنا چاہیے میرے نزدیک کسی کی ڈاڑھی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ اصل چیز جو آدمی کے ایمان کی کمی اور بیشی پر دلالت کرتی ہے وہ تو اور ہی ہے۔ البتہ مجھے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان کی کمی کو بعض ظاہری چیزوں کی بیشی سے پورا کرنے کی اب تک کوششیں کی جاتی رہی ہیں، کہیں جماعت اسلامی کے بھی کچھ لوگ اسی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اگر کسی کی حقیقی جاں نثاری و وفاداری اللہ کی راہ میں’’طویل‘‘ ہو تو کوئی بڑا نقصان نہ ہوجائے گا اگر اس کی ڈاڑھی ’’قصیر‘‘ ہولیکن اگر جاں نثاری و وفاداری ’’قصیر‘‘ ہے تو یقین رکھیے کہ ڈاڑھی کا طول کچھ بھی فائدہ نہ دے گا، بلکہ بعید نہیں کہ خدا کے ہاں اس پر فریب کاری اور مکاری کا مقدمہ چل جائے۔
آپ اس کی فکر نہ کیجیے کہ ہماری جماعت کے ارکان کے متعلق لوگ کیا رائے قائم کریں گے اور ان کے ظاہر سے کیا اثر لیں گے۔ آپ کو اور ہمارے تمام رفقاء کو اپنے باطن کی فکر اپنے ظاہر سے بڑھ کر ہونی چاہیے اور اسی طرح اپنے ان اعمال کی زیادہ فکر کرنی چاہیے جن پر خدا کی میزان میں آدمی کے ہلکے یا بھاری ہونے کا مدار ہے، کیونکہ اگر ایسے اعمال ہلکے رہ گئے تو بال برابر وزن رکھنے والی چیزوں کی کمی و بیشی سے میزان ا لہٰی میں کوئی خاص فرق واقع ہونے کی توقع نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، جمادی الثانیہ ۶۴ھ۔ مارچ، جون ۴۵ء)