عالمانہ جاہلیت
سوال: ’’ایک عالم دین اور صاحب دل بزرگ خطبات اور سیاسی کشمکش (جلد ۳) پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملازمتیں غیر اللہ کی اطاعت کی تعریف میں نہیں آتی۔ یہ تو اپنی اور اپنے اہل ملک کی خدمت ہے۔ یہ حد درجہ غلط طریق کار ہے کہ خزائن ارض پر ہندو اور سکھ بطور حاکم مسلط ہوں اور مسلمان شودر کی حیثیت میں صرف مطالبہ گزار بن کر رہ جائیں، اور ملازمت کریں بھی تو اس کی آمدنی کو حرام سمجھ کر کھایا کریں۔ میں حیران ہوں کہ ان کو کیا جواب دوں۔‘‘
جواب: جن صاحب کے اعتراض کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر ان کے متعلق آپ یہ نہ لکھتے کہ وہ عالم دین اور صاحب دل ہیں تو ان کے اعتراضات کو پڑھ کر میں اس کے بالکل برعکس رائے قائم کرنے پر مجبور ہوتا اور صبر کر لیتا لیکن اب آپ سے یہ معلوم کرکے کہ وہ ماشاء اللہ دل اور دین دونوں رکھتے ہیں، ان کے یہ خیالات میرے لیے سخت حیرت کے موجب ہیں۔ علم رکھنے والے لوگ جب اس قسم کی باتیں کریں تو ان سے کوسوں دور رہنا چاہئے۔ بہکے ہوئے جاہلوں کو سمجھایا جا سکتا ہے، مگر بہکے ہوئے عالموں کو سمجھانے کی کوشش فضول ہے۔ جو کچھ لکھ چکا ہوں اس سے زیادہ اور کچھ لکھنا میرے بس میں نہیں ہے اور اگر اس کو پڑھ کر بھی ان لوگوں کو اطمینان نہیں ہوتا تو جس راستہ پر چل رہے ہیں، اسی پر چلے جائیں، مرنے کے بعد حقیقت ان پر بھی کھل جائے گی اور مجھ پر بھی۔
(نوٹ) اس سے پہلے کے استفسار میں جو خیالات پیش کیے گئے ہیں ان کے بالمقابل ذرا ان خیالات پر بھی نگاہ ڈالیے۔ ایک طرف جدیدتعلیم یافتہ سیدھا سادھا مسلمان ہے اور دوسری طرف ایک عالم دین اور صاحب دل بزرگ۔ اس تقابل سے اندازہ کیجیے کہ جس گروہ کی امتیازی علامت ہی تقویٰ ہونی چاہئے تھی، آج وہ کس طرح سوچ رہا ہے اور دوسری طرف جو لوگ دہریت و الحاد کی فضا میں ناخدا شناس تعلیم و تربیت پا کر نکلے تھے اور جن کے پاس ان دیندار بزرگوں کی بہ نسبت اپنی غلط روی کے لیے بیشمار عذرات موجود تھے، ان کے اندر آج ضمیر کی بیداری کے کیسے خوشگوار آثار نمودار ہورہے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر۶۳ھ جنوری، فروری۴۴ء)