تبلیغی جماعت سے ایک دوستانہ شکایت
سوال:پچھلے دنوں سکھر میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں ہندوستان و پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر جناب مولانا محمد یوسف صاحب (صاحب زادہ و جانشین مولانا محمد الیاس صاحب مرحوم) خود تشریف لائے تھے۔ جماعتِ اسلامی سکھر نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر جلسہ گاہ کے حدود میں اپنا ایک بک اسٹال لگائے۔ چنانچہ منتظمین سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کے ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا اس میں اعتراض کی کون سی وجہ ہوسکتی ہے، آپ شوق سے اپنا مکتبہ لگائیں۔ اس کے بعد ان سے اسٹال کے لیے جگہ بھی طے ہوگئی۔ مگر دوسرے روز شام کو جب فضل مبین صاحب امیر جماعتِ اسلامی سکھر نے وہاں جا کر اسٹال لگوانے کا انتظام شروع کیا تو انہیں یکایک منع کردیا گیا۔ وجہ پوچھی گئی تو ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ ’’ہماری مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ آپ کو مکتبہ لگانے کی اجازت دیں گے اور نہ آپ سے کسی قسم کا دوسرا تعاون لیں گے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ایک سیاسی جماعت ہیں‘‘۔ اس جواب اور اس طرز عمل پر جو تعجب ہوا، اس پر مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ وہاں دوسرے متعدد بک اسٹالز موجود تھے اور اس پر ان حضرات کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر جماعتِ اسلامی کے متعلق ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی جلسہ گاہ سے ایک میل تک بھی اس کا مکتبہ نظر نہ آئے۔
اس پر ۱۱؍ اپریل کو ڈاکٹر سلیم الدین صاحب امیر جماعتِ اسلامی حلقہ بالائی سندھ، فضل مبین صاحب امیر جماعت شہر سکھر اور مولوی قربان علی صاحب رکن جماعت، مولانا محمد یوسف صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان سے عرض کی کہ ’’اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت مقصد میں متحد ہیں اور صرف طریقہ کار میں فرق ہے۔ لیکن یہ سلوک جو ہمارے ساتھ کیاگیا ہے، یہ اس باہمی اخلاص اور تعاون کو نقصان پہنچانے والا ہے جو دین کی خدمت کرنے والی ان دو جماعتوں کے درمیان اب تک رہا ہے اور ہمیشہ رہنا چاہیے، کیا واقعی آپ ہمیں ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں؟ اس پر حضرت جی (مولانا محمد یوسف صاحب) اسی نام سے یاد کیے جاتے ہیں) نے فرمایا:
’’میں اس مکتبہ وغیرہ کے سخت خلاف ہوں اور یہ لوگوں نے طریقہ بنالیا ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے حاصل کرنے کے لیے کتابیں لکھتے ہیں۔ اسی علم نے خرابیاں پیدا کی ہیں۔ فساد کی جڑ یہی ہے۔ میں کتابیں لکھنے، اخبار چھاپنے اور اس قسم کی چیزیں کرنے کا سخت مخالف ہوں۔ اصل میں انہی چیزوں نے مسلمانوں کو بے عمل کردیا ہے اور یہ چیزیں مجاہدے کا بدل نہیں ہوسکتیں۔‘‘
یہ ارشاد سن کر ہمیں دوگونہ حیرت ہوئی۔ ایک اس بنا پر کہ حضرت جی اگر مکتبہ وغیرہ کے ایسے ہی سخت خلاف تھے تو جماعت اسلامی کے سوا دوسرے مکتبے جلسہ گاہ میں کیوں برداشت کیے گئے؟ دوسرے اس بنا پر کہ کتابوں اور رسائل کی اشاعت اور قیمتاً ان کو فروخت کرنے کا گناہ تو دیوبند اور سہارنپور اور تھانہ بھون کے بزرگ بھی کرتے رہے ہیں، بلکہ خود تبلیغی جماعت کے متعدد نامور بزرگوں سے اس کا صدور ہوا ہے پھر یہ کیا بات ہے کہ وہ یہی کام کریں تو خدمتِ دین اور دوسرے کریں تو صرف پیسے بٹورتے ہیں؟ پھر ’’اکرام مسلم‘‘ کا بھی یہ عجیب تصور ہمارے لیے باعث حیرت تھا کہ وہ فسق کے علمبرداروں کے خلاف زبان کھولنا تو اکرام مسلم کے خلاف ہو، مگر ایک دینی خدمت کرنے والی جماعت کے کام اور مقصد کا کھلم کھلا استخفاف کرنا اور اس کی نیت پر حملہ کرنا عین اکرام مسلم ہو۔
اس کے بعد حضرت جی نے فرمایا:
’’آپ تو حکومت کے طالب ہیں۔ آپ اس چیز کے طالب ہیں جو مردود ہے۔ حضور رسول مقبولﷺ کو نبوت حکومت پیش کی گئی تو آپؐ نے اس کو رد کردیا، ٹھکرادیا اور نبوت عبدیت قبول کی۔ آپ کا یہ خیال کہ حکومت و بادشاہت میں تبدیلی ہوجائے تو اسلام زندہ ہوجائے گا، بالکل غلط ہے۔‘‘
حاضرین میں سے ایک صاحب کے اس سوال پر کہ کلمۃ الحق عند سلطان جابر کے کیا معنی ہیں؟ حضرت نے فرمایا یہ اس وقت کے لیے ہے جب پورا معاشرہ درست ہو اور صرف حکومت میں خرابی نظر آتی ہو۔ اس وقت کلمہ حق کہنا درست ہے تاکہ جو خرابی ابھی تک صرف حکومت تک محدود ہے، وہ آگے نہ بڑھنے پائے، اس وقت یہ موقع نہیں ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت جی نے یہ بھی فرمایا کہ: اس وقت جو لوگ برسرِ اقتدار ہیں وہ تم سے بہتر ہیں۔ ایمان میں، افعال میں، تدبیر میں اور قابلیت میں وہ آپ سے بہتر ہیں۔ آپ ان کے بجائے کون سے لوگ لائیں گے؟‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اس جماعت کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یہ سوال اس لیے کیا جارہا ہے کہ اگر دوچار جگہ اور اس طرح کے تلخ تجربات ہوئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اکرام و اخلاص اور ہمدردی کا جو تعلق اب تک رہا ہے، اس میں فرق واقع ہوجائے۔ لہٰذا اس باب میں جماعت کے کارکنوں کو واضح ہدایت مل جانی چاہئیں۔
جواب: یہ روداد جماعت اسلامی کے چند ذمہ دار کارکنوں نے ہمارے پاس بھیجی ہیں اسے پڑھ کر فی الواقع ہمیں دلی صدمہ ہوا۔ خود مولانا محمد یوسف صاحب کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کی مجلس شوریٰ کا یہ فیصلہ اور پھر مولانا موصوف کا اس کی توثیق فرمانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی فرد خاص کا انفرادی رجحان نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی روش ہے۔ اس پر سوائے اس کے کہ افسوس کیا جائے، اورکیا کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال، جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اس پر برا نہیں ماننا چاہیے۔ اب نہ سہی کسی نہ کسی وقت انشاء اللہ ان حضرات کو اپنے اس طرزِ عمل کی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔ خدمت دین کے لیے دو یا دو سے زیادہ گروہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق کام کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے طریقے سے اختلاف بھی رکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ ان میں سے کوئی گروہ بھی آخر کیوں اس میدان میں صرف اپنے آپ کو دیکھنا چاہے اور دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرے؟ دین کی خدمت کوئی کاروبار نہیں ہے کہ یہاں ایک خادم ایک دوسرے کو رقیب سمجھے، رقابت تو دوکانداروں میں ہوتی ہے۔ یہ کام اگردوکانداری کے طور پر کررہے ہیں تو ہم پر اور ہمارے اس کاروبار پر ہزار لعنت اور اگر یہ اخلاص کی بنا پر خدا کے دین کی خدمت ہے تو، ہم میں سے ہر ایک کو خوش ہونا چاہیے کہ یہ کام تنہا وہی نہیں کررہا ہے، دوسرے بھی اس میں سرگرم کار ہیں۔ اس لیے خواہ کوئی ہمیں رقیب ہی سمجھ کر دور پھینکنے کی کوشش کرے، ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اسے رقیب نہ سمجھیں اور بار بار اس کے قریب جائیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کا دل بھی بدل دے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ بعض علماء اور ارباب حکومت اور بعض دوسرے گروہ کچھ مدت سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی کا یہ لٹریچر کسی طرح ان کے حلقہ اثر میں نہ پہنچنے پائے۔ کہیں اس کے پڑھنے پڑھانے سے منع کیا جارہا ہے، کہیں دارالمطالعوں اور کتب خانوں میں اس کی آمد کو روکا جارہا ہے۔ کہیں ان لوگوں کو مدرسوں اور ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے جن کے پاس یہ لٹریچر دیکھا گیا۔ کہیں دوسرے طریقوں سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ لوگ اس لٹریچر سے آشنا ہی نہ ہونے پائیں، بلکہ کہیں تو یہ کہا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کی کوئی چیز سنو بھی نہیں۔ ہمارے دلوں میں تو اس قسم کا خیال تک بھی نہیں آیا کہ ہم سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی کی چیز پڑھنے اور کسی کی بات سننے سے احتراز کریں۔ جماعت کے ارکان اور متفقین ہر قسم کی چیزیں پڑھتے ہیں۔ ہر ایک کی بات کھلے دل اور کھلے کانوں سے سنتے ہیں۔ جماعت خود یہ کوشش کرتی ہے کہ اس حلقے کے لوگ دنیا بھر کی چیزیں پڑھیں اور سنیں تاکہ ان کی نظر وسیع ہو اور زیادہ اچھی طرح رائے قائم کرنے کے قابل ہوں۔ حد یہ ہے کہ جماعت کے خلاف جس جس گروہ کی طرف سے جتنا کچھ لکھا جاتا ہے، وہ سب جماعتوں کے حلقوں میں آزادی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ پھر یہ ہمارے دوسرے بھائیوں کو آخر کیا ہوا ہے کہ وہ ہمارے معاملے میں چشم بندی و گوش بندی کی پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں؟ کیا یہ اس بات کا کھلا اعتراف نہیں ہے کہ وہ اپنے موقف کی کمزوری اور ہمارے موقف کی مضبوطی کا خود احساس رکھتے ہیں؟ کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے دائرہ اثر کے لوگوں کو تاریکی میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بس اسی وقت تک ان کے اثر میں ہیں، جب تک یہ ان کی بنائی ہوئی محفوظ پناہ گاہ میں محصور ہیں؟ اور کیا خود وہ لوگ جو اپنے استادوں اور پیروں اور سرداروں کے باندھے ہوئے اس حصار میں رہنے پر راضی ہوجاتے ہیں، اپنی جگہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بہتر اور مضبوط موقف رکھنے والا کب اس بات سے ڈرا کرتا ہے کہ دوسرے کسی شخص کے دلائل سن کر اس کے حلقہ اثر کے لوگ متزلزل ہوجائیں گے۔
مولانا محمد یوسف صاحب کے متعلق ہمیں یہ بدگمانی نہیں ہے کہ انہوں نے ہماری دعوت کا اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد اس کا خلاصہ نکالا ہوگا کہ ’’ہم بس حکومت چاہتے ہیں۔‘‘ ہمارا خیال یہ ہے وہ بیچارے خود اس حصار کے شکار ہوئے ہیں جو مذہبی گھرانوں میں پرورش پانے والوں کے گرد عموماً کھینچ دیا جاتا ہے۔ اس حصار میں محصور ہونے کی وجہ سے ہماری کوئی کتاب پڑھی، نہ پڑھنے کی ضرورت محسوس کی۔ محض سنی سنائی باتوں سے ہماری دعوت کا یہ عجیب سا خلاصہ نکال لیا۔ اگر وہ ایک مخلص خیرخواہ کی گزارش کو قابل توجہ سمجھیں تو ان سے عرض کیا جائے کہ اگر رائے زنی کرنا ضروری ہو تو اظہار رائے سے پہلے اس چیز سے واقفیت بہم پہنچانی چاہیے جس پر آپ رائے ظاہر کررہے ہیں اور اگر آپ کو اس کی فرصت نہ ہو تو بہتر ہے کہ ناکافی معلومات کی بنا پر آپ کوئی رائے ظاہر نہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ ، اپریل، مئی ۱۹۵۴ء)