ایک ہمدرد بزرگ کا مشورہ
سوال: اقامت دین کی تحریک حسب معمول قدیم نئے فتنوں سے دو چار ہو رہی ہے۔ فتویٰ بازی اور الزام تراشی جس طبقہ کا مخصوص شعار تھا، وہ تو اپنا ترکش خالی کرکے ناکام ہوچکا ہے۔ اب اصحاب غرض نے ہمارے سلسلہ دیو بند کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں کی جماعتِ اسلامی نے کچھ تنقید و تبلیغ میں بے اعتدالی سے کام لیا ہو اور اس کا رد عمل ہو۔ وہاں کے استفتاء کے جواب میں بھی اور یہاں پاکستان کے استفتاؤں کے جواب میں بھی مستند و محتاط حضرات کے فتویٰ شائع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اہل علم کا بہت زیادہ طبقہ دیو بند سے وابستہ ہے اور وہاں کے فتوے سے اثر پذیر ہونا بھی لازمی ہے جس کا اثر بد تحریک پر بھی پڑسکتا ہے۔ لہٰذا آپ ضرور مناسب طریقے سے اس کی مدافعت کیجیے۔ ۳۲ صفحے کا ایک فتوی دارالافتاء سہارن پور کا شائع ہوا ہے جس کے آخر میں مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہان پوری اور مولانا اعزاز علی صاحب کا فتویٰ بھی ہے رسالہ دارالعلوم کا جو پہلا نمبر نکلا ہے اس میں حضرت مولانا گنگوہی کے پوتے حکیم محمود صاحب کا ایک طویل مکتوب ہے۔ اگرچہ انہوں نے نہایت محتاط طریقے سے اور متانت کے رنگ میں لکھا ہے اور میرے خیال میں انداز تعبیر نہایت سنجیدہ ہے۔ لیکن بہرحال انہوں نے بھی تحریک کو عوام کے لیے دینی لحاظ سے مضر بتایا ہے۔ اثر انگیز ہونے کے لحاظ سے جوشیلے اور غیر معتدلانہ فتوؤں سے یہ زیادہ برا ہوتا ہے۔ کل مجھے بٹالہ کے ایک بزرگ کو ضلع … سے خط آیا ہے جن کا حضرت گنگوہی سے تعلق تھا اور اس کے بعد دوسرے تمام بزرگان دیو بند سے تعلق رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ابھی مجھے حضرت … کا خط سہارن پور سے آیا ہے اور انہوں نے تحقیق حال کے طور پر پوچھا ہے کہ ایک واقعہ مجھے صحیح طور پر معلوم کرکے لکھو۔ پاکستان سے برابر خط آرہے ہیں کہ مولانا مودودی، حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت مولانا نانوتوی کا نام لے لے کر ان کی مخالفت میں تقریریں کرتا رہا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کے ساتھ مناسبت ہی نہ تھی اور خاص طور پر سرگودھا کی تقریروں کا حوالہ دیا ہے کہ وہاں نام لے کر یہ مخالفت کی گئی ‘‘۔ بٹالو بزرگ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ صحیح واقعہ کیا ہے۔ میں نے انہیں جواب دے کر تردید کردی ہے کہ یہ محض افترا ہے اور خود سہارن پور بھی حضرت … کو خط لکھ دیا ہے۔ تاہم آپ خود بھی ان الزامات کی تردید کریں۔ جواب در جواب کا سلسلہ بھی غلط ہے اور سکوت محض سے بھی لوگوں کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اصل مقصد یعنی تحریک اقامت دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ علی الخصوص حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت مولانا محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مولانا حفیظ الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا احمد سعید صاحب، حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب، حضرت مولانا حافظ عبد اللطیف صاحب سے خط و کتابت کرکے انہیں مشورہ دیں کہ اگر میرے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی استفتاء آپ کے سامنے آئے تو جواب دینے سے پہلے مجھ سے اصل حقیقت معلوم کرلیا کریں۔
جواب: آپ کے مخلصانہ مشوروں کا بہت شکر گزار ہوں۔ ممکن تھا کہ میں انِ مشوروں پر عمل کرتا، لیکن اتفاق کی بات کہ آپ کا عنایت نامہ ملنے کے بعد دوسرے ہی روز ایک صاحب نے مجھے مفتی سعید احمد صاحب کا مفصل فتویٰ جو ’’کشف حقیقت‘‘ کے نام سے چھپا ہے، بھیج دیا ہے اور اس کے ساتھ دو تین اشتہار بھی بھیجے جن میں مولانا کفایت اللہ صاحب، مولانا جمیل احمد تھانوی، مولانا اعزاز علی صاحب اور مہدی حسن صاحب کے فتوے درج تھے۔ ان فتوؤں کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ۔ اب یہ حضرات اس مقام سے گزر چکے ہیں جہاں ان کو خطاب کرنا مناسب اور مفید ہو۔ سب سے زیادہ افسوس مجھے مولانا کفایت اللہ صاحب پر ہے، کیوں کہ میں ۳۲ سال سے ان کا نیاز مند ہوں اور ہمیشہ ان کا احترام کرتا رہا ہوں۔ افسوس کہ انہوں نے بھی جماعتی عصبیت میں آنکھیں بند کرکے یہ فتویٰ تحریر فرمادیا۔ باقی رہے دوسرے حضرات تو ان کے فتوے پڑھ کر میں نے یہ محسوس کیا کہ جس وقت یہ فتوے لکھے جارہے تھے، اس وقت خدا کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا احساس شاید ان کے قریب بھی موجود نہ تھا۔ خصوصاً مفتی سعید احمد صاحب کے فتوؤں میں تو صریح بد دیانتی کی بد ترین مثالیں پائی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر گھن آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ان حضرات کے ساتھ بڑا حسن ظن رکھتا تھا، مگر اب ان کے فتوے دیکھ کر تو میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ بریلوی طبقہ کے فتوے باز و کافر ساز مولویوں سے ان کا مقام کچھ بھی اونچا نہیں ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ میں اس قسم کی تحریروں کا جواب کبھی نہیں دیا کرتا، اس لیے یہ اندیشہ نہ فرمائیں کہ ان فتوؤں کے جواب میں یہاں سے کچھ لکھا جائے گا اور بات بڑھے گی۔ لیکن اس کے ساتھ میرا طریقہ یہ بھی نہیں ہے کہ جو مجھے ٹھوکر مارے، میں اس کے آگے سرجھکادوں۔ یہ طریقہ نہ اس کام کی عزت کے مطابق ہے جسے میں کر رہا ہوں اور نہ اس طریقے سے فی الواقع دین ہی کی کوئی مصلحت پوری ہوسکتی ہے۔ یہ لوگ اگر دیانت اور سچائی کا ہتھیار لے کر حملہ آور ہوتے اور مجھ میں یا جماعتِ اسلامی کی تحریک و نظام میں کوئی ایسی خرابی بتادیتے جو فی الواقع ان کے دلائل سے ثابت ہوتی تو میں یقیناً ان کے آگے جھکتا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرتا۔ لیکن انہوں نے ہتھیار جھوٹ کا استعمال کیا ہے اور حملہ آور ہونے میں دنایت کی راہ اختیار کی ہے۔ اس لیے میں ان کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کروں گا جو ایک شریف آدمی کو کرنا چاہیے۔ یعنی اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔
اس میں شک نہیں کہ دیو بند اور سہارن پور کے ان فتوؤں کا ان لوگوں پر برا اثر پڑے گا جو ان دونوں کے مراکز عملی سے وابستہ ہیں۔ لیکن سنتہ اللہ کے مطابق آزمائش ضروری ہے، اور اب اس پورے دیو بندی اور مظاہری گروہ کے لیے آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے لوگ حق پرست ہیں اور کتنے اشخاص پرست! جو حق پرست ہیں، وہ انشاء اللہ ہمارے ساتھ رہیں گے اور آئندہ بھی ہمارے ساتھ آتے رہیں گے … اور جو اشخاص پرست ہیں، اور جماعتی عصبیت میں مبتلا ہیں، وہ ہم سے الگ ہوجائیں گے اور آئندہ کبھی ہمارے ساتھ نہ چلیں گے۔ ہمیں صرف پہلے گروہ ہی کی ضرورت ہے۔ دوسرے گروہ سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ وہ ہٹ جائے گا تو ہم خدا کا شکر ادا کریں گے اور آئندہ ہم سے بے تعلق رہے گا تو مزید شکر کریں گے۔
حکیم محمود صاحب گنگوہی کا مضمون ایک واسطے سے ترجمان القرآن میں چھپنے کے لیے آیا ہے اور وہ مع جواب شائع کیا جارہا ہے۔ آئندہ بھی اگراس گروہ کے کوئی صاحب مجھ پر یا جماعتِ اسلامی پر کوئی علمی تنقید فرمائیں گے تو اسے بلاتامل شائع کیا جائے گا اور قابل جواب باتوں کا جواب بھی دیا جائے گا۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ تا رجب ۱۳۷۰ھ، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)