جماعتِ اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم
سوال: میں اپنے قصبہ … میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے کام کر رہا ہوں۔ چند اور رفیق بھی میرے ساتھ ہیں۔ انفرادی مخالفت پہلے بھی تھی جس کی رپورٹ میں اپنی جماعت کے مرکز کو بھیجتا رہا ہوں لیکن اب ایک معاملہ ایسا پیش آگیا ہے کہ آپ سے استفسار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
پرسوں سے ایک مولانا صاحب جن کا نام … ہے یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے قصبہ میں اپنے خاص اشتہارات (ایک نقل منسلک ہے) کافی تعداد میں تقسیم کروائے ہیں۔ پھر شام کو ایک بہت بڑے مجمع میں تقریر کرکے جماعتِ اسلامی کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ میں چند باتیں ان کی نقل کرکے ملتمس ہوں کہ ضروری تصریحات سے جلد از جلد میری رہنمائی فرمائی جائے۔
مولانا مذکور کے ارشادات یہ تھے۔
(۱) جماعتِ اسلامی کے بڑے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نہ تو کوئی مستند عالم ہیں نہ کوئی مفسر۔ صرف اپنے ذاتی علم کی بنا پر ترجمہ اور تفسیر کرتے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ کا ترجمہ ’’خطبات‘‘ میں یہ ہے کہ ’’نیکی کا مرتبہ تم کو نہیں مل سکتا جب تک تم وہ چیزیں خدا کے لیے قربان نہ کردو جو تم کو عزیز ہیں‘‘۔ اس کی تشریح میں مولانا ئے مذکور نے یہ فرمایا کہ دیکھو جماعتِ اسلامی تم کونیک اور مسلمان نہیں سمجھتی جب تک کہ تم کل مال خدا کی راہ میں جماعت کو نہ دے دو۔ ورنہ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ تم نیکی میں کمال حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی پیاری چیز میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ نیک اور مسلمان تو تم ہر وقت ہو ہی، جب تک تم یہ کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں، البتہ کامل جب ہو گے جب پیاری شے میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان کرو گے۔
قرآن کے چند ترجموں میں میں نے بھی دیکھا ہے کہ لفظی ترجمہ یہی ہے جو انہوں نے کیا ہے اس کی کیا تاویل ہوسکتی ہے۔
(۲) پھر انہوں نے یہ کہا کہ دیکھو جماعتِ اسلامی قرآن میں تحریف کرکے اس کو اپنے منشا کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے جو بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے ایک رسالہ (ترجمان القرآن جلد ۱۲، عدد ۲، ماہ صفر مطابق اپریل ۱۹۳۸ء ص ۱۳۹) پر سورہ بقرہ رکوع ۲۴ کی ایک آیت پیش کی ہے:
رسالہ مذکور میں تحریر کردہ آیت یہ ہے: یا ایھا الناس ادخلوا فی السلم کافۃ …الخ، حالاں کہ قرآن پاک میں یہی آیت اس طرح درج ہے: یا ایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ …الخ یہ ان کی ایسی دلیل ہے جو واقعی ہے اور مخالف لوگ اس تحریف سے جتنا بھی مشتعل ہوں کم ہے۔ چوں کہ یہ قرآن کا معاملہ ہے جس کی بقا کے لیے ہر مسلمان خواہ وہ بے عمل ہی کیوں نہ ہو، جان کی بازی لگا سکتا ہے۔ آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
مولانا مذکور نے اپنی تقریر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جماعتِ اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور جب تک اس کام میں کامیابی حاصل نہ کر لوں گا دوسرا کام اپنے اوپر حرام سمجھوں گا۔ اسی لیے انہوں نے چند علما کے فتویٰ لے کر چھپنے کے لیے بھیجے ہیں جن کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جائے گا۔
جواب: جو حالات آپ نے لکھے ہیں وہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں جو پاکستان میں ہر جگہ رونما ہیں۔ ہم اور ہمارے مخالفین، دونوں اپنا اپنا نامہ اعمال خود تیار کر رہے ہیں۔ جن اعمال کو ہم اپنے حساب میں درج کرانا چاہتے ہیں ان کے لیے کوشاں ہیں اور دوسرے فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ہمارے مخالفین نے اگر اپنے لیے یہی پسند کیا ہے کہ ان کے نامہ اعمال میں ہماری مخالفت ہی سب سے نمایاں مقام پائے تو ضرور وہ اس کار خیر کو بڑھ چڑھ کر انجام دیں۔ ایک وقت آئے گا کہ ہم سب کے ہاتھ میں اپنا اپنا تیار کردہ کارنامہ حیات دے دیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اقرا کتابک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا
جو مولانا صاحب آپ کے علاقے میں جماعتِ اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھائے پھر رہے ہیں ان کے اعتراضات کا مختصر جواب یہ ہے:
(۱) خطبات کے جس مقام کو انہوں نے نشانہ ملامت بنایا ہے ، وہ ’’زکوٰۃ کی حقیقت‘‘ کے زیر عنوان آپ خود تلاش کر سکتے ہیں۔ لن تنالوا البر …الخ کا ترجمہ میں نے یہ کیا ہے: ’’تم نیکی کے مقام کو نہیں پاسکتے جب تک کہ وہ چیزیں خدا کی راہ میں قربان نہ کرو جن سے تم کو محبت ہو‘‘۔اور اس سے میں نے مراد یہ لی ہے کہ اللہ کا دوست بننے اور اس کی پارٹی (حزب اللہ) میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی محبت پر جان، مال، اولاد، خاندان، وطن، ہر چیز کو قربان کردے۔ اس کے ساتھ ذرا مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ترجمہ و تشریح پر بھی نگاہ ڈال لیں۔ وہ ترجمہ یہ فرماتے ہیں:’’تم خیر کامل کوکبھی نہ حاصل کرسکو گے، یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کو خرچ نہ کرو گے‘‘ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست عزیز تھی، جس کے تھامنے کو نبیﷺ کے تابع نہ ہوتے تھے۔ تو جب تک وہی نہ چھوڑیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں درجہ ایمان نہ پاویں۔(ملاحظہ ہو معجزہ نماحمائل شریف مطبوعہ۱۳۵۷ھ، صفحہ ۹۷) اب ہر شخص خود دیکھ لے کہ نہ میرا ترجمہ ہی مولانا ممدوح کے ترجمہ سے کچھ زیادہ مختلف ہے اور نہ اس کی تشریح ہی میں معنی کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد معترض نے میرے ترجمہ و تشریح سے جو معنی نکالے ہیں، ان پر دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے۔ آخر میرے ترجمہ و تشریح سے یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک کوئی شخص اپنا سارا مال خدا کی راہ میں جماعتِ اسلامی کے حوالے نہ کردے، یہ جماعت اس کو نیک اور مسلمان نہیں سمجھتی؟ اس طرح جو لوگ دوسروں کو مطعون کرنے کے لیے اپنی طرف سے غلط باتیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کرتے ہیں، ان کی یہ حرکت خود ہی ظاہر کردیتی ہے کہ وہ نفسانیت کی بنا پر مخالفت کر رہے ہیں نہ کہ للہیت کی بنا پر۔
(۲) دوسری مثال جو انہوں نے دی ہے اس کو آپ کے دیے ہوئے حوالے سے میں نے اپریل ۱۹۳۸ء کے ترجمان القرآن میں نکال کر دیکھا اور معلوم ہوا کہ یہاں آیت نقل کرنے میں واقعی مجھ سے سخت غلطی ہوگئی ہے اور افسوس ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ترجمہ بھی غلط ہوگیا ہے۔ اس غلطی کو آج تیرہ سال گزر گئے۔ اس دوران میں آج تک نہ میری نگاہ اس پر پڑی اور نہ کسی نے مجھ کو اس طرف توجہ دلائی۔ معترض بزرگ کا شکریہ کہ انہوں نے اس دیدہ ریزی کے ساتھ میری خطاؤں کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور ایسی سخت غلطی پر ان کے ذریعے مجھے تنبیہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سہو تھا یا دانستہ تحریف۔ بہرحال میرا معاملہ تو اللہ سے ہے۔ معترض بزرگ اگر پبلک کو حاکم حقیقی سمجھتے ہیں تو انہیں پورا اختیار ہے کہ اس کو دانستہ تحریف قرآن کا جرم قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس کا جتنا فائدہ اس دنیا میں اٹھا سکتے ہوں، اٹھائیں۔
اب چند کلمات ان فتوؤں کے متعلق بھی عرض ہیں جو آپ کے ارسال کردہ اشتہار میں درج ہیں اور جناب مولانا مہدی حسن صاحب، مولانا اعزاز علی صاحب اور مولانا فخر الحسن صاحب کے قلم سے صادر ہوئے ہیں۔ ان فتوؤں میں مجرد حکم بیان کیا گیا ہے۔ دلائل و شواہد درج نہیں ہیں۔ مولانا مہدی حسن صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ میری کتابوں اور مضامین میں کیا باتیں ’’اہل سنت و الجماعت کے طریقہ کے خلاف ہیں‘‘ اور انہوں نے کہاں سے یہ نتیجہ نکالا کہ میں ’’صحابہ کرام اور آئمہ مجتہدین کے متعلق اچھا خیال نہیں رکھتا‘‘ اور احادیث کے متعلق میرے کیا خیالات ہیں جو ان کے نزدیک ’’ٹھیک نہیں ہیں‘‘ اور میں نے کہاں لکھا ہے کہ میں ’’بے عمل مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا‘‘ موخرالذکر دونوں بزرگوں نے بھی کچھ تھوڑی سی مزید تکلیف گوارا کرکے وہ زہر پیش نہیں کیا جو جماعت کی جانب سے شہد میں ملا کر مسلمانوں کو استعمال کرایا جارہا ہے اور نہ وہ دلائل ارشاد فرمائے ہیں جن کی بناپر وہ مرزائیوں کو جماعتِ اسلامی کے ’’اسلاف‘‘(افسوس کو دونوں صاحبوں کو شریف آدمیوں کی سی زبان لکھنے کی توفیق بھی میسر نہ ہوئی) قرار دیتے ہیں اور اس جماعت کو ان سے بھی زیادہ دین کے لیے ضرر رساں بتاتے ہیں۔ اگر یہ اجمال و اختصار محض ’’ضیق وقت‘‘ کی وجہ سے ہے، جیسا کہ انہوں نے بیان فرمایا ہے، تو یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ جن لوگوں کے پاس دلائل و وجوہ بیان کرنے کے لیے وقت نہیں، ان کو دوسروں پر اس قسم کے لغو اور مہمل فتویٰ جڑنے کے لیے کافی وقت مل جاتا ہے لیکن اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے فتوؤں کے لیے کوئی معقول دلیل اپنے پاس نہیں رکھتے، اس لیے انہوں نے محض چند سطری احکام جاری کرکے اپنے بغض کی تسکین کا سامان کیا ہے، تو میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے حق میں خدا سے نیک ہدایت کی دعا کروں۔ بہرحال آپ موقع پائیں تو ان صاحبوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ آپ پر میرا اور جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا، اور عام مسلمانوں کا یہ اخلاقی حق ہے کہ آپ اپنے فتویٰ کے دلائل و وجوہ بیان فرمائیں۔ ان کی جو بات حق ہوگی، اسے قبول کرنے میں انشاء اللہ دریغ نہیں کیا جائے گا اور میں یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے میں نہ تامل ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا، بشرطیکہ میری غلطی دلائل سے ثابت کی جائے نہ کہ سبّ وشتم سے اور اگر انہیں کوئی غلطی لاحق ہوئی ہوگی تو اسے دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے صفحات خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ جس طرح مولانا حکیم عبدالرشید محمود صاحب گنگوہی کا مضمون بے کم وکاست یہاں شائع کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے، اسی طرح ان کے ارشادات بھی کسی حذف و ترمیم کے بغیر درج کیے جائیں گے اور جواب حاضر کردیا جائے گا۔ اشتہار بازوں کے لپے اوچھے ہتھیار فراہم کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنے علمی وقار کے ساتھ سامنے تشریف لائیں اور پوری بات کہہ کر دوسرے کا جواب سننے کے لیے تیار ہوں۔
دوسرے وہ حضرات بھی جو وقتاً فوقتاً اپنی مجلسوں میں میرے اور جماعتِ اسلامی کے خلاف اظہار فرماتے رہتے ہیں، میری اس گزارش کے مخاطب ہیں۔ ان سے کہیں سابقہ پیش آئے تو عرض کردیجیے گا کہ آپ کی شانِ تقویٰ اور جلالت قدر کے لحاظ سے یہ طریقہ کچھ موزوں نہیں ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ شخص متعلق کو اپنے اعتراضات سے آگاہ فرمائے تاکہ یا تو اس کی اصلاح خیال ہوجائے یا آپ کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے اکثر اصحاب نے جماعتِ اسلامی کی مطبوعات کو بالاستیعاب نہیں دیکھا ہے بلکہ یا تو کچھ نیاز مندوں سے سنی ہوئی باتوں پر یقین کر لیا ہے یا بعض ہوشیار لوگوں نے خاص خاص عبارتیں پوری ہوشیاری کے ساتھ انہیں دکھائی ہیں اور انہی کمزور بنیادوں پر بدگمانیوں کے بڑے بڑے قصر تعمیر کر ڈالے ہیں۔ اگر یہ حضرات کچھ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرکے اورکچھ اخلاقی جرأ ت سے کام لے کر ہمیں اپنے اعتراضات سے مطلع فرمائیں، تو ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کو اپنے موقف سے اچھی طرح آگاہ کردیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اشتہار باز حضرات کو اور ان لوگوں کو جو اپنے رسائل و جرائد میں مسلسل کینہ توزی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں، ہم منہ لگانے کے قابل نہیں سمجھتے۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ تا رجب ۱۳۷۰ھ، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)