دعویٰ مہدویت کا بہتان
سوال: مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعتِ اسلامی کے موضوع پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ انہوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔ حاضرین کے دلوں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی علیہ السلام کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟ مہربانی فرما کر بذریعہ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں؟
جواب: مولانا … اور ان کے گروہ کے علما نے میرے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع کیا ہے، میں اس سے بے خبر نہیں ہوں۔ مگر میرے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ بار ہا اس طرح کے لوگوں نے طرح طرح کے جھوٹ میرے خلاف پھیلانے کی کوشش کی ہے اور میں نے ہمیشہ ان کے مقابلے میں صبر سے کام لیا ہے۔ میرا اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔
مولانا صاحب موصوف اور ان کے ساتھیوں نے یہاں آکر مجھ سے جو باتیں منسوب کیں اور پھر واپس جا کر جو خطرے کی گھنٹی بجائی، ان دونوں کے فرق پر جب غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے دل خدا کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بالکل خالی ہوچکے ہیں اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو کچھ بھی ہے بس یہی دینا ہے، آگے کوئی نہیں جہاں اپنے اقوال و اعمال کا انہیں حساب دینا ہوگا۔
میرا ہمیشہ یہ قاعدہ رہا ہے اور میں آئندہ بھی اسی پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ جن لوگوں کو میں صداقت و دیانت سے بے پروا اور خدا کے خوف سے خالی پاتا ہوں، ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان سے بدلہ لینا میرے بس میں نہیں ہے، خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ ان کے جھوٹ کی تردید کرنے کی مجھے ضرورت نہیں۔ ان کا پردہ انشاء اللہ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔ اس لیے آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ میں ان کے جواب میں کوئی بیان کسی اخبار کو بھیجوں گا۔
میری کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ جس کی بعض عبارتوں کو غلط معنی پہنا کر وہ مجھے مدعی مہدویت قرار دے رہے ہیں، آج کی کوئی نئی تصنیف نہیں ہے۔ یہ آج سے دس سال پہلے شائع ہوئی تھی، اس وقت سے اب تک برابر شائع ہوتی رہی ہے اور اب بھی آپ کو ہر جگہ مل سکتی ہے۔ آپ اس کو خود دیکھیں، دو چار سطروں یا چند فقروں کو نہیں، پوری کتاب کو پڑھیں۔ آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ میں نے اس میں اپنی مہدویت یا مجددیت کا دعویٰ کیا ہے یا دعویٰ کرنے والوں کی تردید کی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)