کیا یہ تنابز بالالقاب ہے؟
سوال: آپ کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ اقامتِ دین کے لیے کھڑی ہوئی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت ہمیشہ جماعتِ احمدیہ کو ’’مرزائی جماعت‘‘ یا ’’قادیانی جماعت‘‘ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ حالانکہ یہ امر دیانت کے بالکل خلاف ہے کہ کسی کو ایسا نام دیا جائے جو اس نے اپنے لیے نہیں رکھا۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی جماعت کا نام ’’جماعت احمدیہ‘‘ رکھا ہے اور ان کی جماعت کے افراد بھی اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ کہتے ہیں۔ مگر ان کے مخالفین تعصب کی وجہ سے انہیں ’’مرزائی یا قادیانی‘‘ پکارتے ہیں۔ کیا دینِ اسلام میں یہ جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ آپ کی جماعت کے افراد کو ’’مودودیئے‘‘ کہا جائے۔ اگر آپ یہ پسند نہیں فرماتے تو پھر آپ اور آپ کی جماعت دوسروں کے لیے ایسا کیوں پسند کرتی ہے؟
واضح رہے کہ آپ نے ترجمان القرآن جلد ۳۵، ۳۶ عدد، ۵، ۶،۱ کے صفحہ نمبر ۱۴۶ میں تحریر فرمایا ہے: ’’میں اپنی حد تک یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے میں نہ تامل ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا، بشرطیکہ میری غلطی دلائل سے ثابت کی جائے نہ کہ سب وشتم سے۔‘‘
جواب: کسی جماعت کو اس کے معروف نام سے یاد کرنا، جبکہ فی الواقع اس میں توہین کا بھی کوئی پہلو نہ ہو، ناجائز نہیں ہے۔ احمدی حضرات نے اپنا نام ’’احمدی‘‘ پسند کیا ہے، یعنی وہ اپنے آپ کو بانی سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ عرفِ عام میں ان کا نام ’’قادیانی‘‘ رائج ہوچکا ہے۔ یعنی عوام الناس ان کو بانی سلسلے کے وطن کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں تذلیل و تحقیر کا کونسا پہلو ہے اور یہ خلافِ دیانت کیوں ہے۔ اگر یہ خلافِ دیانت ہے تو وہ سارے ہی عرف ناجائز اور خلافِ دیانت قرار پائیں گے جو لوگوں میں رائج ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے افراد کو ’’مودودیئے‘‘ کہنے پر ہمیں اس لیے اعتراض ہے کہ ہم اپنے مسلک اور نظام کو کسی شخصِ خاص کی طرف منسوب کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ ’’مودودی‘‘ تو درکنار ہم تو اس مسلک کو ’’محمدیؐ‘‘ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ تو ’’اسلام‘‘ ہے جس کا موجد ہونے کا شرف کسی انسان کو حاصل نہیں۔ اس لیے اسے کسی انسان کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ ہمیں ’’نوحیئے‘‘ یا ’’ابراہیمئے‘‘ کہیں گے تب بھی ہمیں وہی اعتراض ہوگا جو ’’مودودیئے‘‘ کہنے پر ہے۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب اور ان کے متبعین نے اپنے مسلک و جماعت کو خود ہی ایک شخصِ خاص کی طرف منسوب کیا ہے اور عوام نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اس شخص کی بجائے اس کے وطن کی طرف انہیں منسوب کردیا۔ یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ سلسلۂ چشتیہ بھی بانی سلسلہ کی بجائے ان کے وطن کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہوا ہے۔ یہی معاملہ سلسلۂ سہروردیہ، سنوسیہ ، شطاریہ وغیرہ کے ساتھ بھی ہوچکا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ان سلسلوں کی توہین کا کوئی پہلو ہے۔ رہا لفظ ’’مرزائی‘‘ تو البتہ میں اسے پسند نہیں کرتا اور میں نے خود کبھی اسے استعمال نہیں کیا۔ الاّ یہ کہ کسی نے سوال میں یہ لفظ استعمال کرلیا ہو میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے حکایتاً اسے استعمال کرلیا ہو۔
(ترجمان القرآن ذیقعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء)