نماز کا مسنون طریقہ
سوال: میں پہلے نماز ادا کرنے کی سعادت سے محروم تھا، لیکن الحمد للہ کہ اب نماز ادا کرتا ہوں۔ مجھ کو اس بارے میں بڑی پریشانی درپیش ہے۔ میں جس بستی میں تعلیم پا رہا ہوں وہاں کے لوگ دیو بندی حنفی ہیں اور میرے گاؤں کے لوگ اہل حدیث ہیں۔ اب اگر میں نماز اہل حدیث کے طریقے پر ادا کرتا ہوں تو بستی کے لوگ مجھے وہابی کہہ کر پریشان کرتے ہیں اور جب حنفی طریقے پر پڑھتا ہوں تو گاؤں کے لوگ مجھے مقلد ہونے کا طعنہ دے دیتے ہیں۔ چوں کہ مجھے آپ پر اعتماد ہے، لہٰذا اس معاملے میں آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ آخر رسول اللہ ﷺ نے تو نماز ایک ہی طریقے پر پڑھی ہوگی، پھر یہ مختلف فرقوں کے مختلف طریقوں کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کون سا فرقہ آنحضرت ﷺ کے طریق پر نماز ادا کرتے ہیں اور میں کس مسلک پر رہوں۔ یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ خود آپ کس طریق پر نماز ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیہات میں نماز جمعہ ادا کرنی چاہیے یا نہیں؟
جواب: اہل حدیث، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی حضرات جن جن طریقوں سے نماز ادا کرتے ہیں، وہ سب طریقے نبیﷺ سے ثابت ہیں اور ہر ایک نے معتبر روایات ہی سے ان کو لیا ہے۔ اسی بنا پر ان میں سے کسی ایک گروہ کے اکابر علما نے یہ نہیں کہا کہ ان کے طریقے کے سوا جو شخص کسی دوسرے طریقے پر نماز پڑھتا ہے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ صرف بے علم لوگوں کا کام ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے طریقے کے سوا دوسرے طریقے سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اسے ملامت کرتے ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ نبی ﷺ نے مختلف اوقات میں ان سب طریقوں سے نماز پڑھی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو صرف اس امر میں کہ آپ ﷺ عموماً کس طریقے پر عمل فرماتے تھے۔ جس گروہ کے نزدیک آپﷺ کا جو طریقہ معمول بہ طریقہ ثابت ہوا ہے، اس نے وہی طریقہ اختیار کرلیا ہے۔
میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں مگر اہل حدیث، شافعی، مالکی، حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں۔
دیہات میں نماز جمعہ کا مسئلہ بہت اختلافی ہے۔ حنفی اس کو جائز نہیں سمجھتے۔ اہل حدیث جائز سمجھتے ہیں اور دوسرے فقہا کے مسلک بھی اس معاملے میں مختلف ہیں۔ آپ کے سوال کا مختصر جواب غلط فہمی کا موجب ہوگا۔ مفصل بحث میری کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصہ دوم میں ملاخظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، ربیع الاوخر ۱۳۷۰ھ ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)