اسلام کے قانون اراضی پر چند سوالات
سوال: ایک مقامی عالم نے جماعت کا منشور پڑھ کر دو سوالات کیے ہیں۔ ان کا جواب عنایت فرمایا جائے
(۱) زرعی اصلاحات کے سلسلے میں جاگیروں کی واپسی میں واجبی حدود سے زائد واپس لینے کی دلیل بیان فرمائیں۔ جبکہ حضرت زبیرؓ کو حضورﷺ نے گھوڑے اور چابک کی جولانگاہ تک کی زمین دی تھی۔
(۲) بے دخلی مزارعین کے سلسلے میں یہ تو واضح ہے کہ فصل کی برداشت سے پہلے بے دخلی نہیں ہوسکتی لیکن اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں کہ بے دخلی روکی جائے۔ اگر کوئی اور صورت ہو تو مع دلیل فرمائیں۔
ایک دوسرے عالم نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہان کی نعمتوں سے ہر فردِ بشر منتفع ہونا چاہیے۔ اب انتقاع عامہ کے لیے اگر ملکیتوں کو نظامِ حکومت کے سپرد کردیا جائے تو یہ قرآن مجید کا منشاء معلوم ہوتا ہے۔
جواب: پہلے سوال کے سلسلے میں یہ بات اصولی طور پر جان لینے کی ہے کہ حکومت کی عطا کردہ جاگیروں پر جاگیرداروں کے حقوق ملکیت اس طرح قائم نہیں ہوجاتے جس طرح کسی شخص کو اپنی زرخرید املاک یا موروثی ملکیتوں پر حاصل ہوتے ہیں۔ جاگیرداروں کے معاملے میں حکومت کو ہر وقت نظرِ ثانی کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی عطیہ کو نامناسب پاکر حکومت منسوخ بھی کرسکتی ہے اور اس میں ترمیم بھی کرسکتی ہے۔
اس کی کئی نظیریں احادیث و آثار میں موجود ہیں۔ ابیض بن حمال ماذنی کو نبیﷺ نے مارب میں ایک ایسی زمین دی جس میں سے نمک نکلتا تھا۔ بعد میں جب لوگوں نے حضورﷺ کو توجہ دلائی تو وہ تو نمک کی بڑی کان ہے تو آپﷺ نے اسے اجتماعی مفاد کے خلاف پاکر اپنا عطیہ منسوخ فرمادیا۔ اس سے صرف یہی بات معلوم نہیں ہوتی کہ سرکاری عطایا پر نظرثانی کی جاسکتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو حدِاعتدال سے زیادہ دے دے دینا اجتماعی مفاد کے خلاف ہے اور اگر ایسا عطیہ دیا جاچکا ہو تو اس میں نظرثانی کرنی چاہیے۔ یہی بات اس روایت سے معلوم ہوتی ہے جس میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت طلحہؓ کو ایک زمین کے عطیہ کا فرمان لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اس پر فلاں فلاں اصحاب کی شہادت ثبت کروالو جن میں سے ایک حضرت عمرؓ بھی تھے۔ جب حضرت طلحہؓ، حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو آپؓ نے اس پر اپنی مہر لگانے سے انکار کردیا اور کہا :
’’اھذا کلہ لک دون الناس؟‘‘
’’کیا اتنی ساری زمین دوسروں کو چھوڑ کر تنہا تم اکیلے کو دے دی جائے؟‘‘ (ملاحظہ ہو کتاب الاموال لا بی عبید، صفحہ ۷۶، ۲۷۵)
رہا حضرت زبیرؓ کا معاملہ تو جس وقت حضور اکرمﷺ نے وہ ان کو دی ہے، اس وقت بے حساب زمینیں غیر آباد پڑی تھیں اور حضور اکرمﷺ کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کسی طرح ان کو آباد کیا جائے۔ اسی لیے آپﷺ نے اس زمانے میں بکثرت لوگوں کو افتادہ اراضی کے بڑے بڑے رقبے عطا فرمائے تھے۔
بے دخلی کے متعلق حکومت ایسا قانون بنانے کی مجاز ہے کہ کوئی مالک کسی مزارع کو معقول وجوہ کے بغیر بے دخل نہ کرسکے۔ اس کے ناجائز ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اگر کوئی نص اس میں معنی نہیں ہیں تو پھر یہ اجازت امام کے ان اختیارات میں آپ سے آپ شامل ہے جو اسے لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنے اور اجتماعی فتنوں کی روک تھام کرنے کے لیے مصالح عامہ کی خاطر دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جبکہ ہماری آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا مدار زندگی کلیتہً زمین پر ہے، مالکوں کو یہ کھلا ہوا اختیار دے دینا کسی طرح بھی مصلحت عامہ کے مطابق نہیں ہے کہ وہ جب جس کاشتکار کو چاہیں، بغیر کسی معقول وجہ کے اپنی زمین سے بے دخل کردیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کہیں کوئی کاشتکار اطمینان سے نہ بیٹھ سکے اور لاکھوں زراعت پیشہ لوگوں کی زندگی ہر وقت معلق رہے۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ عجیب و غریب نتیجہ جو اخذ کیا گیا ہے کہ ملکیتوں کو نظامِ حکومت کے سپرد کردیا جائے، اس کے متعلق مجھے یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوگی کہ آخر قرآن مجید کے کون سے مقامات اس کے ماخذ ہیں؟ احتیاطاً آپ میری کتاب ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ کی پہلے دو باب ان عالم صاحب کی خدمت میں پیش فرمادیں تاکہ وہ ان باتوں کو نہ دہرائیں جن کا جواب پہلے دیا جاچکا ہے؟ یا اگر انہیں دہرائیں تو کم ازکم یہ بھی ساتھ ساتھ بتادیں کہ میرے جواب کے کن پہلوؤں سے وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ اس طرح میرا وقت بھی بچ جائے گا اور ان کا وقت بھی۔
(ترجمان القرآن شعبان ۱۳۷۰ھ، جون ۱۹۵۱ھ)