نذر ونیاز میں ایصال ثواب
سوال: براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:
(ا) نذر ،نیاز اور فاتحہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(ب) کیا ایک دکان دار کسی ایسے شخص کے ہاتھ بھی اپنا مال فروخت کرسکتا ہے، جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا ذریعہ معاش کلیتہً معصیت فاحشہ کی تعریف میں آتا ہے؟
جواب: (ا) نیاز جو خالصتہً اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے، بالکل جائز اور موجب اجرو ثواب ہے اور اگر کوئی انفاق فی سبیل اللہ کھانے یا کپڑے یا عطیے کی صورت میں اس غرض سے کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما کر ہمارے کسی متوفی عزیز کی مغفرت فرمادے یا اس انفاق کا ثواب اس عزیز کو بخش دے تو بجائے خود اس فعل کو ناجائز نہیں کیا جاسکتا۔ رہا اس کا اس عزیز کے لیے نافع ہونا تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، وہ چاہے تو اس کے لیے نافع بنادے ورنہ وہ انفاق کرنے والے کے لیے تو بہر حال نافع ہوگا ہی۔ اگر تلاوت قر آن مجید یا کوئی بدنی عبادت کرکے آدمی یہ دعا کرے کہ اس کا ثواب اس کے کسی متوفی عزیز کو پہنچ جائے تو اس میں اختلاف ہے کہ آیا ایصال ثواب کی یہ شکل بھی درست ہے یا نہیں۔ بعض آئمہ کے نزدیک یہ درست ہے اور بعض کے نزدیک درست نہیں ہے۔ میں متعدد شرعی دلائل کی بنا پر موخرالذکر مسلک ہی کو ترجیح دیتا ہوں۔
اگر کوئی مالی یا بدنی عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے اور بزرگان دین میں سے کسی کو اس غرض کے لیے اس کا ثواب ایصال کیا جائے کہ وہ بزرگ اس ہدیے سے خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہدیہ بھیجنے والے کے سفارشی بن جائیں تو یہ ایک ایسا مشتبہ فعل ہے جس میں جواز و عدم جواز بلکہ گناہ اور فتنے تک کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہیں اور میں کسی پرہیز گار آدمی کو یہ مشورہ نہ دوں گا کہ وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے۔
رہے وہ کھانے جو صریحاً کسی بزرگ کے نام پر پکائے جاتے ہیں، اور جن کے متعلق بالفاظ صریح یہ کہاجاتا ہے کہ یہ فلاں بزرگ کی نیاز ہے، اور جن کے متعلق پکانے والے کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ ایک نذرانہ ہے جو کسی بزرگ کی روح کو بھیجا جا رہا ہے اور جن سے متعلق ہمارے ہاں طرح طرح کے آداب مقرر ہیں اور بے حرمتی کی مختلف شکلیں ممنوع قرار پائی ہیں اور ان نیازوں کی برکات، اور فوائد کے متعلق گہرے عقائد پائے جاتے ہیں، تو مجھے ان کے حرام اور گناہ ہونے بلکہ عقیدہ توحید کے خلاف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
(ب) اگر حرام ذریعہ معاش رکھنے والا شخص کسی دکان دار سے کوئی چیز خریدنا چاہے تو دکان دار کے لیے اس کے بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دکان دار کے پاس جس راستے سے قیمت پہنچے گی، وہ حلال ہے۔ گندگی اور حرمت پیسے میں نہیں بلکہ کسب معاش کے طریقے میں ہے۔ جس شخص کے پاس حرام ذریعہ سے پیسہ آیا ہے، وہ اسی کے لیے حرام ہے۔ دوسرے شخص کو وہی پیسہ اگر حلال راستے سے پہنچے تو ان کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ ۱۳۷۱ھ، اگست ۱۹۵۲ء)