برطانیہ میں ایک مسلمان طالب علم کی مشکلات
سوال: یہاں آکر میں کچھ عجیب سی مشکلات میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ سب سے زیادہ پریشانی کھانے کے معاملے میں پیش آرہی ہے۔ اب تک گوشت سے پرہیز کیا ہے۔ صرف سبزیوں پر گزارہ کر رہا ہوں۔ سبزی بھی یہاں آپ جانتے ہیں کہ صرف ابلی ہوئی ملتی ہے اور وہ بھی زیادہ تر آلو۔ انڈہ یوں بھی کمیاب ہے اور پھر اس پر راشن بندی ہے، ہفتے میں دو تین انڈے مل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد اللہ صاحب امام ورکنگ مسجد(لندن) سے ملا۔ انہوں نے یہ بتایا کہ کلام پاک کی رو سے ایک تو سور کا گوشت حرام ہے، دوسرے خون، تیسرے مردار اور چوتھے وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر ذبح کیا جائے۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک یہاں کے طریقہ ذبح کا تعلق ہے، اس سے شہ رگ کٹ جاتی ہے اور سارا خون نکل جاتا ہے۔ چوں کہ اس خون کا نکلنا طبعی نقطہ نظر سے ضروری ہے، لہٰذا اس کا یہاں خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور صحیح ہے کہ گردن پوری طرح الگ کردی جاتی ہے، لیکن کلام پاک میں اس سلسلے میں کوئی ممانعت وارد نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہاں جانور کسی کے نام پر ذبح نہیں کیے جاتے، بلکہ وہ تجارتی مال کی حیثیت سے سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ ذبح ہوتے ہیں۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اللہ کا نام تو نہیں لیا جاتا لیکن کسی اور کا بھی نام نہیں لیا جاتا۔ پس وہ غیر اللہ سے منسوب نہ ہونے کی وجہ سے کھایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان سے بہت دیر بحث رہی مگر طبیعت نہیں مانتی کہ یہ گوشت جائز ہوسکتا ہے۔
پھر کھانے میں جو سوپ دیا جاتا ہے وہ کبھی کبھی تو صرف سبزیوں سے بنا ہوا ہوتا ہے، مگر آج ہی اتفاق سے اس میں ایک ٹکڑا گوشت کا نکل آیا۔ شکایت کی تو معلوم ہوا کہ کبھی کبھی گوشت اور سبزی ملا کر بھی سوپ بنایا جاتا ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ جہاں دوسو آدمی اطمینان سے یہ سب کچھ کھا پی رہے ہوں وہاں دو چار آدمیوں کا لحاظ کون کرے گا؟ پھر مکھن، پنیر اور میٹھا کھانا بھی دسترخوانوں پر آتا ہے۔ ان چیزوں میں بھی حرام دودھ یا چربی کی آمیزش ہونے کے بارے میں قوی شبہ ہوتا ہے۔ علاوہ بریں باورچی حرام کھانوں میں استعمال ہونے والے چمچے اٹھا کردوسرے کھانوں میں ڈالتے رہتے ہوں گے۔ یہ کچھ عجیب پیچیدگی ہے جسے حل کرنے میں مشورہ مطلوب ہے۔
دوسری بات نمازوں کے متعلق دریافت طلب ہے۔ صبح کی نماز کا وقت 6 بج کر 38 منٹ تک رہتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ادا کرلیتا ہوں۔ ظہر کے لیے مشکل سے وقت ملتا ہے۔ ساڑھے بارہ سے لے کر ڈیڑھ تک کھانے کے لیے وقت ملتا ہے۔ اسی ایک گھنٹہ میں کلاس سے (Mess) تک آنے جانے میں بھی وقت لگتا ہے اور اس میں وضو اور نماز کے لیے بھی وقت نکالتا ہوں۔ لیکن بہت ہی دقت ہوتی ہے۔ عصر کے لیے سرے سے وقت ملتا ہی نہیں، کیوں کہ فرصت ساڑھے چار بجے ہوتی ہے اور ساڑھے چار بجے سے ۵ بجے تک رات کا کھانا ہوتا ہے اور ۴ بج کر ۴۸ منٹ پر مغرب ہوجاتی ہے۔ کھانے کے فوراً بعد مغرب تو ادا کرلیتا ہوں، لیکن عصر رہ جاتی ہے۔ میں معلوم کرناچاہتا ہوں کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ملا کر پڑھنے کا کیا قاعدہ ہے۔ ورکنگ مسجد کے امام صاحب بعض اوقات نمازوں کو ملا کر پڑھتے ہیں۔
یہاں ہم بارہ طلبہ آئے ہوئے ہیں جن میں سے مجھ سمیت پانچ لڑکے ایسے ہیں جو دین کا لحاظ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور بقیہ ایسے ہیں کہ ہم کو طرح طرح سے بے وقوف بناتے ہیں۔ تا ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ان باتوں سے کبھی نہیں گھبراتا بلکہ صحیح بات معلوم کرکے اس پر عمل بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ان مسائل پر میں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر غور کیا ہے اور اس سے ہمیشہ یہی توقع رکھی ہے کہ وہ مجھے ضرور صحیح راستے کی طرف ہدایت دے گا، مگر بَشری کمزوریوں کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ کوئی غلط صورت اختیار نہ کر بیٹھوں۔ اس لیے آپ سے یہ سوال کر رہا ہوں۔
جواب: آپ نے جن مسائل کے متعلق میری رائے دریافت کی ہے، ان کے بارے میں مختصراً عرض کرتا ہوں۔
(۱) ذبیحہ کی صحت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ جانور کی شہ رگ کاٹ کر خون نکال لیا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر خدا کا نام لیا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ ’’جس پر خدا کا نام نہ لیا گیاہو، اسے نہ کھاؤ۔‘‘ اب یہ ظاہر ہے کہ انگلستان میں جو جانور قتل کیے جاتے ہیں، ان پر خدا کا نام نہیں لیا جاتا اس لیے ان کے حلال ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سورہ مائدہ میں ’’طعام اہل کتاب‘‘ کو ہمارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو چیزیں خدا نے ہمارے لیے ناجائز ٹھہرائی ہیں۔ انہیں بھی ہم اہل کتاب کے ہاتھ سے لے کر کھاتے ہیں۔ اس بنا پر میرے لیے ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کی رائے سے اتفاق کرنا تو ممکن نہیں ہے البتہ آپ کو اپنی خوراک کے معاملے میں جو مشکل پیش آرہی ہے، اس کا حل ضروری ہے۔ سو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ غیر لحمی یا نباتاتی غذا (Vegetraian diet) پر اکتفا کریں جس کا انتظام انگلستان میں ہوسکتا ہے اور گوشت کا کوئی ٹکڑا اس میں نکل آئے تو کھانے کے منتظم سے اس کی شکایت کرکے اس کا سدباب کرائیں۔ دوسرے یہ کہ وہم کو دل سے نکال دیں۔ جو چیز آپ کے سامنے دسترخوان پر پیش ہو، اس میں اگر کوئی حرام شے موجود نہ ہو تو اطمینان کے ساتھ کھا لیجیے اور اس اندیشے سے اپنے ذہن کو پریشان نہ کیجیے کہ اس میں حرام کھانے کا چمچہ ڈال دیا گیا ہو، یا اس میں کسی حرام جانور کی چربی شامل کردی گئی ہوگی۔ آپ کو اپنے عمل کی بنیاد علم اور یقین پر رکھنی چاہیے نہ کہ گمان اور اندیشے کی بنا پر۔ آپ صرف اس غذا سے پرہیز کریں جس میں کسی حرام شے کے شمول کا آپ کو علم ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ جب کبھی گوشت کو دل چاہے تو مچھلی پکوالیں یا یہودیوں کا ذبیحہ حاصل کریں جس کا ملنا انگلستان میں مشکل نہیں ہے۔
(۲) نمازوں کے بارے میں جس مشکل کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس کا حل یہ ہے کہ ظہر کی نماز میں اگر سنتیں ادا کرنے کا وقت نہ مل سکے تو صرف فرض پڑھ لیا کریں۔ اور عصر کے لیے وقت ملنے کی اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو تو مغرب کے ساتھ قضا پڑھ لیا کریں۔ دووقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے معاملے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ظہر اور مغرب کے آخری وقتوں میں عصر کو ظہر کے ساتھ اور عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے، اور دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ایک وقت کی نماز کے ساتھ دوسرے وقت کی نماز پیشگی بھی پڑھی جاسکتی ہے۔لیکن اس بات کو قریب قریب تمام علمائے اہل سنت نے ناجائز قرار دیا ہے کہ کوئی شخص دووقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی عادت بنالے۔ کیوں کہ اس طرح تو عملاً پانچ وقت کے تین وقت ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس سے تو پرہیز کریں، البتہ جب کبھی عصر کی نماز پڑھنا ممکن نہ ہو ، اسے قضا پڑھ لیا کریں۔
مجھے افسوس ہے کہ ہماری حکومت جن لوگوں کو تعلیم و تربیت کے لیے باہر بھیجتی ہے، ان کی تمام مذہبی ضروریات کے لیے کوئی اہتمام نہیں کرتی۔ اگر سرکاری طور پر اس کی فکر کی جاتی تو انگلستان میں ہمارے طلبا کے لیے حلال غذا کا بھی انتظام ہوسکتا تھا اور نمازوں کے لیے بھی ان کو وقت دلوایا جاسکتا تھا۔
(ترجمان القرآن ۔ صفر ۱۳۷۰، دسمبر ۱۹۵۰ء)