وراثت میں اخیافی بھائی بہنوں کا حصہ
سوال: قدوری (کتاب الفرائض، باب الحجب) میں یہ عبارت درج ہے۔
ان تترک المواۃ زوجاوام اوجدۃ واخوۃ من ام واخامن اب وام فلزوج النصف وللام السدس ولا ولاد الام الثلث ولا شیئی لا خوۃ للاب والام۔
یعنی اگر ایک عورت کے وارثوں میں اس کا شوہر اور ماں یا دادی اور اخیافی (ماں شریک) بھائی اور سگا بھائی موجود ہوں تو شوہر کو آدھا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، اور اخیافی بھائی بہنوں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور سگے بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے؟ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ برادر حقیقی تو محروم ہوجائے اور اخیافی بھائی وارث قرار پائے؟ لفظ کلالہ کی قانونی تعریف بھی واضح فرمائیں۔ کیا والدہ اور دادی کے زندہ ہونے کے باوجود بھی ایک میت کو کلالہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
جواب: قدوری سے جو مسئلہ آپ نے نقل کیا ہے، اس میں سلف کے مابین اختلاف ہے۔ اگر کوئی عورت مرجائے اور پیچھے شوہر، ماں، سگے بھائی بہن اور اخیافی (یعنی ماں جائے) بھائی بہن چھوڑے تو حضرت علی، ابو موسیٰ اشعری اور ابی ابن کعبؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی نصف میراث شوہر کو، ۶/اماں کو، ۱/۳ اخیافی بھائی بہنوں کو دیا جائے گا اور سگے بھائی بہنوں کو کچھ نہ ملے گا۔ اسی فتوے کو علمائے احناف نے لیا ہے۔ اور یہی ان کا مفتیٰ بہ قول ہے۔ بخلاف اس کے حضرت عثمانؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کا یہ مذہب ہے کہ ۱/۳ میراث سگے اور اخیافی بھائی بہنوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔ حضرت عمرؓ پہلے قول اول کے قائل تھے مگر بعد میں انہوں نے قول ثانی اختیار کرلیا۔ ابن عباسؓ سے دو روایتیں مروی ہیں، مگر زیادہ معتبر روایت یہی ہے کہ وہ بھی قول ثانی کے قائل تھے۔ اسی پر قاضی شریح نے فیصلہ کیا ہے اور امام شافعیؒ اور امام مالکؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی یہی ہے۔ حنفیہ کا استدلال یہ ہے کہ اخیافی بھائی بہن ذوی الفروض ہیں اور سگے بھائی عصبات ہیں اور ذوی الفروض کا حق عصبات پر مقدم ہے، لہٰذا جب ذوی الفروض سے کچھ نہ بچے تو عصبات کو کوئی حق نہ پہنچے گا۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ ماں جائے ہونے میں جب سگے اور اخیافی بھائی بہن یکساں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ برابر کے حصے دار نہ ہوں۔
کلالہ کے جو معنی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیان فرمائے ہیں اور جنہیں حضرت عمرؓ نے بھی قبول کیا ہے وہ یہ ہیں من لا ولد لہ ولا والد۔ یعنی کلالہ وہ ہے جس کی نہ اولاد ہو اور نہ باپ۔ اس طرح ماں یا دادی کی موجودگی کسی میت کے کلالہ ہونے میں مانع نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ستمبر ۱۹۵۲ء)