حدیث کے بعض احکام کو خلاف قرآن مجید سمجھنے کی غلطی
سوال: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نماز کی تیاری کریں تو ہمیں وضو کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے از سر نو وضو کرنا ضروری ہے، نماز پڑھ لینے کے بعد وضو کی میعاد ختم ہوجاتی ہے اور دوسری نماز کے لئے بہرحال الگ وضو کرنا لازمی ہے۔ پھر یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ لوگ ایک وضو سے کئی کئی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں وضو کے جو ارکان بیان ہوئے ہیں، ان میں کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے کا ذکر نہیں ہے اور نہ کہیں ایسے افعال و عوارض کی فہرست دی گئی ہے جن سے وضو ٹوٹتا ہے۔ اس صورت میں کلی وغیرہ کرنا اور بعض امور کو نواقض وضو قرار دینا کیا قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟ صلوٰۃ قصر کے بارے میں بھی قرآن مجید وضاحت کرتا ہے کہ صرف پُر خطر جہاد میں ہی نماز میں قصر کیا جاسکتا ہے۔ کیا عام پُر امن سفر میں قصر خلاف قرآن مجید نہیں ہے؟
جواب: بلاشبہ وضو کے بارے میں قرآن مجید میں یہی حکم ہے کہ جب نماز کے لئے اٹھو تو وضو کرو، مگر نبیﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے؟ اسی طرح قرآن مجید میں صرف منہ دھونے کا حکم ہے مگر آنحضرتﷺ نے ہمیں منہ دھونے کا صحیح طریقہ اور معنی بتائے کہ اس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا بھی شامل ہے۔ قرآن مجید میں صرف سر کے مسح کا حکم ہے مگر حضورﷺ نے ہمیں بتایا کہ سر کے مسح میں کان کا مسح بھی شامل ہے۔ آپﷺ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وضو شروع کرتے وقت پہلے ان ہاتھوں کو پاک کرلو جن سے تمہیں وضو کرنا ہے۔ یہ باتیں قرآن مجید میں نہیں بتائی گئی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے حکم قرآنی کی تشریح کرکے ہمیں یہ باتیں بتائی ہیں۔ قرآن مجید کے ساتھ نبی کے آنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ کتاب کے منشا کو کھول کر ہمیں بتائے اور اس پر عمل کرکے بتائے۔ آیت وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اے نبی! ہم نے یہ ذکر لوگوں کے پاس براہ راست بھیج دینے کی بجائے تمہاری طرف اس لئے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ اس ہدایت کی تشریح کرو جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے۔
اس بات کو اگر آپ اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ کو اپنے اس سوال کا جواب سمجھنے میں بھی کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ ایک ہی وضو سے ایک سے زائد نمازیں پڑھنا کیوں جائز ہے۔ دراصل نبیﷺ نے ہمیں بتایا کہ ایک وضو کی مدت قیام کس قدر ہے اور کن چیزوں سے یہ مدت ختم ہوتی ہے۔ اگر حضورﷺ یہ نہ بتاتے تو ایک شخص غلطی کرسکتا تھا کہ تازہ وضو کے بعد پیشاب کرلیتا یا کسی دوسرے ناقص وضو فعل کا صدور اس سے ہوجاتا اور وہ پھر بھی نماز کے لئے کھڑا ہوجاتا یا مثلاً دوران نماز ریح خارج ہوجانے کے باوجود نماز پڑھ ڈالتا۔ قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ نماز کے لئے باوضو ہونا ضروری ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ وضو کب تک باقی رہتا ہے اور کن چیزوں سے ساقط ہوجاتا ہے۔ کوئی شخص بطور خود یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ ابھی ابھی جس شخص نے وضو کیا ہے، ریح خارج ہونے سے اس کے وضو میں کیا قباحت واقع ہوجاتی ہے۔ اب جبکہ حضورﷺ نے واضح طور پر یہ بتادیا کہ وضو کو ساقط کرنے والے اسباب کیا ہیں تو اس سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب تک ان اسباب میں سے کوئی سبب رونما نہ ہو، وضو باقی رہے گا، خواہ اس پر کتنے ہی گھنٹے گزر جائیں اور جب ان میں سے کوئی سبب رونما ہوجائے تو وضو باقی نہیں رہے گا۔ خواہ آدمی نے ابھی ابھی تازہ وضو کیا ہو اور اس کے اعضا بھی پوری طرح خشک نہ ہوئے ہوں۔
اگر ہم آپ کے اس استدلال کو مان لیں کہ قرآن مجید میں چوں کہ حکم ان الفاظ میں آیا ہے کہ جب تم نماز کے لئے اٹھو تو وضو کرو، اس لئے ہر نماز کے لئے تازہ وضو ضروری ہے، تو اسی طرح کا استدلال کرکے ایک شخص یہ حکم لگاسکتا ہے کہ ہر مستطیع مسلمان کو ازروئے قرآن مجید ہر سال حج کرنا چاہیے، اور یہ بھی دعویٰ کرسکتا ہے کہ عمر بھر میں ایک دفعہ زکوٰۃ دے کر آدمی قرآن مجید کا حکم پورا کردیتا ہے۔ تشریح رسولﷺ سے بے نیاز ہو کر تو ہر شخص قرآن مجید کی ہر آیت کی ایک نرالی تعبیر و تاویل کرسکتا ہے اور کسی کی رائے بھی کسی دوسرے شخص کے لئے حجت نہیں بن سکتی۔
قصر کے متعلق سوال کرنے میں بھی آپ وہی غلطی کر رہے ہیں جو وضو کے معاملے میں آپ نے کی ہے۔ قرآن مجید کی منشا کی تعبیر میں قرآن مجید لانے والے رسولﷺ کی توضیح و تشریح کو نظر انداز کردینا ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کی بے شمار قباحتوں میں سے چند کی طرف میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں۔ قرآن مجید صرف حالت خوف میں قصر کی صورت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حالت میں امام کے سوا دوسروں کے لئے صرف ایک رکعت بھی کفایت کرتی ہے۔ اس حکم میں کہیں امن کے قصر کی نفی نہیں ہے۔ یہ دوسرا حکم ہم کو نبیﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور وہ یہ ہے کہ سفر کی حالت میں صبح اور مغرب کے فرض تو پڑھے جائیں، البتہ ظہر، عصر اور عشا کے فرضوں میں دو دو رکعتیں پڑھ لی جائیں۔ اس قصر کو جو شخص خلاف قرآن کہتا ہے وہ دو بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی حکم کے قرآن مجید میں نہ ہونے اور خلاف قرآن مجید ہونے کے کو ایک چیز سمجھتا ہے، حالاں کہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ نبیﷺ کے واسطے کو درمیان سے ہٹا کر براہ راست قرآن مجید کو لینا چاہتاہے، حالاں کہ قرآن اس کے پاس براہ راست نہیں آیا بلکہ نبیﷺ کے واسطے سے آیا ہے، اور خدا نے یہ واسطہ اسی لئے اختیار کیا ہے کہ نبیﷺ اسے قرآن مجید کا منشاء سمجھائیں۔ کیا وہ شخص یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا نے یہ واسطہ فضول اختیار کیا؟
(ترجمان القرآن، جمادی الاول ۱۳۷۲ھ۔ فروری ۱۹۵۳ء)