قتل مرتد کے مسئلے پر ایک اعتراض
سوال: (۱) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً (سورہ نساء 137) کی تشریح کے سلسلے میں ایک مرزائی دوست نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنی کتاب ’’مرتد کی سزا اسلامی قانون میں‘‘ میں لکھا ہے کہ جو ایک دفعہ اسلام لا کر اس سے پھر جائے، اسلام نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے، لیکن قرآن مجید میں دوسری دفعہ ایمان لانا مندرجہ ذیل آیت سے ثابت ہے۔ براہ کرم یہ اشکال رفع فرمائیں۔
(۲) الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سورۃ نور 26) کا مفہوم کیا ہے؟
جواب: آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ سے قتل مرتد کے مسئلے پر آپ کے قادیانی دوست نے جو اعتراض کیا ہے، وہ ان کی کم فہمی کا نتیجہ ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ قتل مرتد کا حکم تو اسی جگہ نافذ ہوسکتا ہے جہاں اسلامی حکومت موجود ہو، مگر مسلمان ان مقامات پر بھی پایا جا سکتا ہے جہاں نہ اسلامی حکومت ہو، نہ ارتداد کی سزا دینی ممکن ہو۔ اس لیے آیت مذکورہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن مجید کی رو سے تمام حالتوں میں کفر بعد الاسلام کے بار بار ارتکاب کا امکان ثابت ہوتا ہے جو قانون قتل مرتد ہونے کی صورت میں ناقابل تصور ہے۔ پھر آپ کے قادیانی دوست کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلامی قانون صدور ارتداد کے بعد فوراً ہی مرتد کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کو اپنی غلطی محسوس کرنے اور توبہ کرنے کا موقع بھی دیتا ہے اور اگر وہ توبہ کرلے تو اسے معاف کردیتا ہے۔
علاوہ بریں انہوں نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ یہ آیت ارتداد کی اخروی سزا بیان کر رہی ہے، اور کسی جرم کا اخروی نتیجہ بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کے لیے کوئی دنیوی سزا نہ ہونی چاہیے۔ جن گناہوں کی سزا قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے ان میں سے متعدد ایسے ہیں جن کی دنیوی سزا کے علاوہ اخروی سزا کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مثلاً مسلمان کو عمداً قتل کرنا۔ اس لیے کہ بکثرت حالات ایسے ہوسکتے ہیں اور رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں ایک شخص ارتکاب جرم کرتا ہے اور دنیوی سزا سے بچا رہتا ہے۔ اسی ارتداد کے معاملے میں دیکھئے کہ اس کی دنیوی سزا صرف اس وقت دی جاسکتی ہے جبکہ آدمی کا ارتداد علانیہ ہو، حکومت کے نوٹس میں آجائے اور عدالت میں اس کا ثبوت بہم پہنچ جائے۔ مگر بکثرت ارتداد ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو مخفی طور پر واقع ہوں اور بار بار توبہ کرنے کے بعد آدمی پھر کفر میں مبتلا ہوتا رہے۔ لہٰذا دنیوی سزا تجویز کردینے کے باوجود اخروی سزا کا ذکر ضروری ہے، اور کسی مقام پر محض اخروی سزا مذکور ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ اس جرم کے لیے دنیوی سزا نہیں ہے۔
اس سلسلے میں میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ’’مرتد کی سزا‘‘ کا نام سنتے ہی قادیانی حضرات آخر کیوں اس قدر پریشان ہوجاتے ہیں؟ میں نے اپنی کتاب میں کہیں بھولے سے اشارہ تک ان کی طرف نہیں کیا ہے۔ پھر بھی وہ اس رائے پر اتنے مشتعل ہیں کہ گویا انہی کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔ کیا وہ خود اپنے متعلق کسی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔
آیت الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ سے مراد یہ ہے کہ بدکار مردوں کے لیے بدکار عورتیں ہی موزوں ہیں، اور بدکار عورتوں کے لیے بدکار مرد ہی موزوں ہیں۔ پرہیز گار اہل ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ ایسے لوگوں سے رشتہ جوڑیں۔
(ترجمان القرآن، رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء)