خلافت کے لیے قرشیت کی شرط
سوال: اسلام تمام دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ سب انسان بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں، گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، اسلام کے حرم میں داخل ہوتے ہی سب اونچ نیچ برابر ہوجاتی ہے، اگر کوئی فرق رہتا ہے تو وہ بس اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ کے اصول پر رہتا ہے۔ پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے جس کا مفہوم یہ یا اس کے قریب ہے خلافت قریش میں رہنی چاہئے۔ یہ صحیح ہے تو پھر ہٹلر ہی نے کیا براکیا اگر اپنی قوم کو تمام دنیا کی قوموں پر فائق اور سرداری کاحق دار ٹھہرایا؟ اور پھر ایک قریشی کے لیے یہ حق ہے کہ قریشی کو نہ صرف عجم پر بلکہ خود اہل عرب پر ہی فوقیت دے تو آخر مغربی اقوام ہی دوسری قوموں کو کم تر ٹھہرانے میں کیوں حق بجانب نہیں؟ اسلام کی اس دعوت کو حدیث کی اس روایت کے ساتھ کیوں کر منطبق کیا جاسکتا ہے؟
جواب: بسا اوقات آدمی ایک خاص ماحول میں خاص موقع و محل پر ایک بات کہتا ہے جو اپنی جگہ بالکل صحیح ہوتی ہے، لیکن جب وہی بات اپنے محل سے الگ کرکے نقل کی جاتی ہے تو اس کی شکل کچھ اور ہی بن جاتی ہے اور اس سے ایسے معنی نکل آتے ہیں جو خود قائل کے منشاء کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ اس معنی کی احادیث کے ساتھ بھی پیش آیا ہے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ حتیٰ کہ اسی غلط فہمی میں پڑ کر فقہائے اسلام کے ایک بڑے گروہ نے خلافت کے لیے منجملہ اور شرائط کے قرشیت کو بھی ایک قانونی شرط قرار دے لیا۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کا منشا کچھ اور تھا۔
اصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ایک طرف اسلام کے اصولوں کی دعوت و تبلیغ بالکل بے لاگ طریقہ سے فرماتے تھے تو دوسری طرف ایک بالغ النظر مدبر کی حیثیت سے وقت اور سوسائٹی اور ماحول کے واقعی حالات پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور ایسی تدابیرعمل میں لانے سے پرہیز فرماتے تھے جو چاہے اصولاً اپنی جگہ صحیح ہوں مگر واقعی حالات کا لحاظ کیے بغیر ان کو عملی جامہ پہنا دینے سے عظیم تر فتنہ رونما ہونے کا اندیشہ ہو۔ آپ نے اس وقت کے عرب کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا تھا، اور بالکل ٹھیک سمجھا تھا کہ قریش کا قبیلہ اپنے مردان کار کی قابلیت اور اپنے ان اثرات کی بنا پر جو اسے صدیوں سے ملک میں حاصل تھے،اتنا طاقتور قبیلہ ہے کہ اگر اس کی موجودگی میں آپ کے بعد کسی غیر قریشی کو امیر بنا دیا گیا تو وہ کامیاب نہ ہوسکے گا۔ اسلام کی جو جمہوری روح آپ نے لوگوں میں پھونک دی تھی اس کی بنا پر عین ممکن تھا کہ مسلمان اس روح کا مظاہرہ کرنے کے لیے آپ کے بعد کسی آزاد کردہ غلام کو خلیفہ بنا لیتے، یا کسی بے اثر قبیلہ کے شیخ کو منتخب کر لیتے۔ لیکن اس وقت ملک کا اجتماعی نظام عملاً جس طرح کا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ نہایت غلط تدبیر ہوتی۔ اسی وجہ سے آپ نے لوگوں کو سمجھا دیا کہ آپ کا جانشین کوئی قریشی ہونا چاہئے۔
حضور اکرمﷺ کا یہ انداز اس قدر صحیح تھا کہ تاریخ آپ کے بعد صدیوں تک اس کی صحت کا ثبوت دیتی رہی ہے۔ قریش کے قبیلے کی زبردست مردم خیزی کا حال یہ تھا کہ خلافت راشدہ کے دور میں چاروں خلیفہ اسی نے فراہم کیے اور معلوم ہے کہ ان چاروں کی ٹکر کا کوئی آدمی فی الواقع اس وقت عرب میں نہ تھا۔ پھر اس قبیلے نے عظیم الشان اموی سلطنت قائم کی۔ اسی نے عباسی سلطنت کو جنم دیا، اسی نے اسپین میں ایک زبردست حکومت کھڑی کردی۔ اور اسی نے مصر میں دولت فاطمیہ کی تاسیس کی۔ ایسی زبردست قابلیتوں اور اثرات کے مالک قبیلہ کی موجودگی میں اگر عملی سیاست کو نظر انداز کرکے محض نظری سیاست کا مظاہرہ کیا جاتا تو نتیجہ خلافت کی ناکامی کی صورت میں نکلتا۔ پس نبی کریمﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ قانونی حیثیت سے نہ تھا کہ ازروئے شرع خلیفہ کو قریشی ہونا چاہئے اور غیر قریشی کو خلافت کا حق نہیں ہے، بلکہ وہ عملی سیاست کے لحاظ سے ایک ہدایت تھی، اور ساتھ ہی آپ نے یہ پیشن گوئی بھی کردی تھی کہ جب تک قریش اپنے اخلاق بلند رکھیں گے اور فی الجملہ دین کی علمبرداری کرتے رہیں گے اور ان میں دو آدمی بھی مردان کار پائے جائیں گے۔ ریاست انہی کو حاصل رہے گی۔
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، احادیث کے تتبع سے اس کی پوری وضاحت ہو سکتی ہے۔
مسند احمد نے عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا قریش قا دۃالناس ’’قریش اہل عرب کے لیڈر ہیں‘‘۔ بیہقی میں حضرت علیؓ کی روایت اس معنی پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ الناس تبع القریش فی الخیر والشر، ’’بھلائی ہو یا برائی، دونوں راستوں میں اہل عرب قریش ہی کے پیچھے چلتے ہیں‘‘(مسلم عن جابر)۔ برالناس تبع البرھم وفاجرھم تبع الفاجرھم،’’اچھے لوگ قریش کے اچھوں کی اور بدکار لوگ قریش کے بدکاروں کی پیروی کرتے ہیں‘‘(مسند احمد بن ابی بکر) الناس تبع القریش فی ھذا الشان، مسلمہم لمسلمھم وکافر ھم لکافرھم،’’اہل عرب سرداری قریش ہی کی مانتے ہیں، مسلمان قریش کے مسلمانوں کی پیروی کرتے ہیں اور کافر قریش کے کافروں کی‘‘(مسلم عن ابی ہریرہ)
اسی مضمون کو حضرت ابو بکرؓ نے بھی اپنی سقیفۂ بنی ساعدہ والی تقریر میں بیان فرمایا ،کہ فاما العرب فلن تعرف ھذاالامر الالھذا الحی من قریش، ’’اہل عرب تو قبیلہ قریش کے سوا کسی اور کی سرداری سے آشنا ہی نہیں ہیں‘‘۔
یہ سب کچھ بیان واقعہ ہے۔ جو کچھ اس وقت عرب کے واقعی حالات تھے اور صدیوں کی تاریخ نے جو حقیقی صورت حال پیدا کردی تھی۔ وہی ان روایات میں بیان کر دی گئی ہے۔ ان میں کہیں بھی کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ معنی نکلتے ہوں کہ نبی کریم کی خواہش یہ تھی کہ قریش سردارہوں۔ بلکہ اس واقعہ کو بطور ایک واقعہ کے بیان کیا گیا ہے کہ قریش ملک کے سردار ہیں۔ یہ واقعہ نبی کریم کی تشریف آوری سے پہلے ہی وجود میں آچکا تھا۔ ساری قوم کے نفسیات پر یہی لوگ چھائے ہوئے تھے۔ زندگی کے ہر پہلو میں یہ آگے تھے اور قوم ان کے پیچھے چلتی تھی۔ پھر جب کہ کفر کی طرح اسلام میں بھی یہی پیش پیش رہے اور انہی کے اثر سے اہل عرب نے اس دین کو قبول کیا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کی اس واقعی اور تاریخی سرداری کے خلاف جنگ کرنے اور اسے بدلنے کی کوشش میں خوامخواہ قوت ضائع کی جاتی۔ اس بنا پر نبی کریمﷺ نے قوم کو ہدایت فرمائی کہ اس واقعہ کو تسلیم کرتے ہوئے زمانہ اسلام میں بھی قریش کو سرداری کے مرتبہ پر قائم رہنے دو قد مواقریشا ولا تقد مرھا ’’قریش کو آگے رکھو، ان کے مقابلہ میں آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو‘‘ (بیہقی و طبرانی)
پھر آپ نے متعدد مواقع پر اس بات کی بھی صراحت فرمادی کہ قریش اس مرتبہ پر اس وقت تک سرفراز ہوں گے جب تک ان میں سرداری کی صلاحیت رہے گی اور جب تک وہ اس دین کو قائم رکھیں گے۔
ان ھذا الامر فی قریش لایعاد یہم احد الاکبہ اللہ علی وجھہ ما اقا موالدین۔
یہ سرداری قریش میں باقی رہے گی اور جو ان کا مقابلہ کرے گا اللہ اس کو منہ کے بل گرادے گا۔ جب تک وہ اس دین کو قائم کرتے رہیں گے۔ (بخاری، باب الامر امن قریش)
یہ سرداری قریش میں رہے گی جب تک ان میں دو مرد ان کار بھی باقی رہیں گے۔(بخاری و مسلم)
ان ارشادات میں صریح طور پر یہ بات مضمر ہے کہ جب قریش اپنی اس اہلیت کو کھو دیں گے تو سرداری ان سے نکل جائے گی اور غیر قریشی بلکہ غیر اہل عرب تک سردار و پیشوا بن جائیں گے۔ اگر اسلامی شریعت میں ازروئے ضابطہ خلافت صرف قریش ہی کا حق ہوتی اور غیر قریشی کو کسی صورت میں یہ حق پہنچتا ہی نہیں تو یہ بات آخر کیسے کہی جا سکتی تھی۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولی۶۵ھ۔ اپریل۲۶ء)