حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے متعلق چند سوالات
سوال: سیاسی کشمکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں ’’پہلا جزیہ ہے کہ انسان کو بالعموم اللہ کی حاکمیت و اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنانے کی دعوت دی جائے، دعوت عام ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہئے۔‘‘ کیا دعوت توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑ نے کیا غیر متعلق چیز نہ تھی؟
پھر آپ لکھتے ہیں: ’’دوسرا جزیہ ہے کہ جتھا ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان بوجھ کر اور سمجھ کر قبول کریں، جو بندگی و اطاعت کو فی الواقع اللہ کے لیے خالص کردیں۔‘‘ کیا سب بنی اسرائیل ایسے ہی تھے؟ کیا ان کے اعمال سے ایسا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ان میں سے کسی نے بھی دین موسوی قبول کرنے سے انکار نہیں کیا تھا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ حالانکہ کسی سعی اور کشمکش کا پتہ قرآن پاک سے نہیں چلتا جس کی بنا پر بنی اسرائیل کے لکھو کھہا آدمی تمام کے تمام مشرکانہ طاقتوں کے زیردست رہنے کے باوجود ایک دم ایمان لے آئے ہوں جو برتاؤ یہودیوں نے حضرت مسیح ؑکے ساتھ کیا وہی برتاؤ حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ اس زمانہ کے کچھ بنی اسرائیل حکومت کی طاقت کو حرکت میں لا کر کرسکتے تھے اور اگر ان میں کچھ کافر تھے تو وہ فرعون کے ساتھ غرق ہوئے یا نہیں؟
اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ (سورۃ طہ:94)
یہ حضرت ہارون ؑ کا مقولہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ حالانکہ حضرت مسیح ؑ بنی اسرائیل ہی کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ میں تمہیں لڑانے آیا ہوں۔
جواب: قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑ کا قصہ متعدد مقامات پر آیا ہے۔ابتدائی مکی سورتوں میں جو قرآن مجید کے آخری حصہ میں ملتی ہیں، یہ ذکر کیا جا چکا تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو خدا کی بندگی قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ مثلاً سورۃ نازعات میں ارشاد ہوتا ہے۔
اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی(۱۷) فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی(۱۸) وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی(۱۹)
اس میں رہائی بنی اسرائیل کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ البتہ بعد کی مکی سورتوں میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصب بنوت پر حضرت موسیٰ ؑ کے تقرر کے دو مقصد تھے۔ اول فرعون اور اس کی قوم کو اسلام کی طرف دعوت دینا۔ دوسرے اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کرے تو پھر اس مسلمان قوم کو، جو حضرت ابراہیم ؑ کے وقت سے مسلمان چلی آرہی تھی اور حضرت یوسف ؑ کے بعد چار پانچ صدیوں کے دوران میں کسی وقت کفار سے مغلوب ہوکر رہ گئی تھی، کفار کے تسلط سے نکالنے کی کوشش کرنا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پہلے مقصد کی طرف پہلے دعوت دی اور دوسرے مقصد کو بعد میں لیا۔ دوسرے مقصد کو پہلے مقصد سے غیر متعلق سمجھنے کی کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آتی۔ ہر نبی کے مشن کا دوسرا مرحلہ لازماً یہی ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو رد کردیا ہے ان کے تسلط سے اہل ایمان کو نکالنے کی کوشش کرے۔
آپ کا سوال کہ کیا سب بنی اسرائیل نے دین موسوی قبول کرلیا تھا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے خیال میں بنی اسرائیل غالباً کافر تھے، اور حضرت موسیٰ ؑ شاید پہلے شخص تھے جنہوں نے ان کو دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ حالانکہ فی الواقع صورت حا ل یہ نہ تھی۔ بنی اسرائیل تو تھے ہی پیغمبروں کی اولاد۔ حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ ان کے مورث اعلیٰ تھے۔ حضرت یوسف ؑ بھی ان کے بزرگوں میں سے تھے۔ حضرت موسیٰ سے پہلے ان کے آخری نبی (حضرت یوسف ؑ) کو گزرے ہوئے پانچ سو برس سے زیادہ نہ گزرے تھے۔اس مدت میں وہ کافر نہیں ہوگئے تھے کہ ان کے کفر سے اسلام میں لانے کا کوئی سوال درپیش ہوتا۔ نہ ان میں حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کا کوئی منکر تھا۔ البتہ ان کے اندر اتنا ضعف آگیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں فرعون اور اس کی قوم کی طاقت سے تصادم کی جرات کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔اس وجہ سے ان کے نوجوان تو حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے بڑی حد تک تیار ہوگئے تھے لیکن ان کے سنِ رسیدہ اور جہاندیدہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ موسیٰ ؑ کا ساتھ دینے کے معنی اپنی دنیا کو تباہ کرلینے کے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے اس حالت کا نقشہ بالکل صاف طور پر سامنے آجاتا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۃ اعراف رکوع ۱۵و سورۃ یونس رکوع ۹ )۔ اس بات کا قرآن سے کہیں نشان نہیں ملتا کہ ان ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں سے کوئی عملاً فرعون کا ساتھ دے کر حضرت موسیٰ ؑکی مخالفت کررہا تھا۔ بلکہ قرآن اور بائبل دونوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے مسلم لیڈر بن گئے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر چلے تو ایک اسرائیلی بھی پیچھے نہ رہا۔
حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں جس تنزل کو بنی اسرائیل پہنچے، اس پر حضرت موسیٰ ؑ کے ہم عصر بنی اسرائیل کو قیاس کرنا درست نہیں۔ اگر اس وقت وہ اپنے سخت اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے کام کے لیے منتخب ہی نہ فرماتا۔
حضرت ہارون ؑ نے جو کچھ حضرت موسیٰ ؑ سے کہا تھا، اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اصل لیڈر اور ان کے جماعتی نظام کے ذمہ دار حضرت موسیٰ ؑ تھے اورحضرت ہارون ؑ ان کے مدد گار کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی غیر موجودگی میں حضرت ہارون ؑ کسی غیر معمولی اہمیت رکھنے والے معاملے پر کوئی فیصلہ کن کاروائی کرتے ہوئے اس بنا پر ڈرتے تھے کہ کوئی ایسی بات ان سے نہ ہوجائے جو اصل ذمہ دار شخص کی پالیسی کے خلاف ہو۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑنے ان کی معذرت کو قبول کر لیا تھا۔
مسیح ؑ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے، وہ بالکل دوسرے حالات سے متعلق ہے۔ اس وقت کوئی اسلامی نظامِ جماعت یہودیوں میں موجود نہیں تھی کہ حضرت مسیح ؑ کے اس قول کہ یہ معنی پہنائے جاسکیں کہ آپ اس نظام جماعت کو درہم برہم کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ بخلاف اس کے حضرت ہارون ؑ کے سامنے ایک مکمل اسلامی نظام جماعت موجود تھا اور وہ بجا طور پر اس امر میں احتیاط برت رہے تھے کہ کہیں ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جو اس نظام جماعت کو درہم برہم کردے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب وشعبان۶۲ھ؍ جولائی و اگست۴۳ء)