جذباتی اور غیر حکیمانہ طرز تبلیغ
سوال: میں نے ایک طالب علم کو جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دی اور زبانی طور پر بھی اس کو جماعت کے نصب العین کی طرف دعوت دیتا رہا، جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب وہ اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو بالکل وقف کرنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کا ماحول بھی اس کا دشمن ہو رہا ہے اور وہ بھی اس سے سخت بیزار ہے۔ اب اس کی خواہش یہ ہے کہ اپنے مقصد کی خاطر ہجرت کرکے دارالاسلام چلا جائے۔ اس کی والدہ بعض شرائط پر راضی ہوگئی ہیں ۔ مگر والد سے اجازت ملنے کی کوئی توقع نہیں۔ اس لئے اس نے مجھ سے استفسار کیا تھا کہ ’’کیا والدین کی اجازت اور مرضی کے علی الرغم دارالاسلام ہجرت کر جاؤں؟‘‘ میں نے اس کو جواب دے دیا ہے کہ ’’مکہ سے مدینہ جانے سے قبل تمام مہاجرین نے اپنے والدین سے اجازت نہیں مانگی تھی۔‘‘ اس کا دوسرا استفسار یہ تھا کہ ’’کیا جماعت میری پشت پناہی پر آمادہ ہوگی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں…… وہاں برے سلوک اور مصائب سے دوچار ہوں۔‘‘ اس کے جواب میں، میں نے اس کو لکھ دیا ہے کہ ’’گو اس کے متعلق صاف صاف کچھ کہنا میرے لئے مشکل ہے مگر اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ نظام باطل کے تحت ہزاروں روپیہ کی کمائی اور ساری دنیاوی لذتیں نظام حق کی جدوجہد کی خاطر فقرہ وفاقہ کی زندگی کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ رسولﷺ عربی کا اسوہ، جس کے اتباع کا ہم مسلمان دم بھرتے ہیں، ہم کو یہی بتاتا ہے مگر اس کے باوجود تم کو یقین رکھنا چاہئے کہ جماعت ہمیشہ اور ہر وقت ایسے لوگوں کی پشت پناہی پر آمادہ ہے جو نظام باطل سے بھاگ کر نظام حق کی طرف آرہے ہوں بلکہ وہ ایسے لوگوں کا خیر مقدم کرے گی بشرطیکہ وہ صرف حق پرست اور حق طلب ہو کر جا رہے ہوں۔‘‘
اب ان امور کے متعلق براہ راست آپ سے ہدایتیں مطلوب ہیں۔ اس سلسلے میں ایک چیز اور بھی سامنے آگئی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے،میں ایک مدرسہ میں معلم ہوں۔ جب میری ان تبلیغی سرگرمیوں کی اطلاع حکومت کے محکمہ تعلیمات کو ملی تو اس نے مجھ سے چند سوالات کئے جن میں مجھ سے جماعت کی حیثیت، اس کے مقاصد، امیر جماعت کی شخصیت وغیرہ امور کی بابت استفسار کرتے ہوئے یہ جواب طلب کیا گیا ہے کہ تم ایک فرقہ وار جماعت کے رکن کیوں ہو اور فلاں طالب علم کو کیوں اس بات پر ورغلاتے ہو کہ وہ موجودہ نظام تعلیم کو ترک کرکے خلاف مرضی والدین دیگر ممالک کو ہجرت کر جائے…… وغیرہ ذالک…… فرمائے اس مراسلے کا کیا جواب دوں؟ میر ارادہ تو صاف صاف اظہارِ حق کا ہے۔
جواب: آپ نے یہ غلطی کی کہ لوگوں کو تبلیغ کی تیز خوراکیں دے کر ہجرت وترکِ علائق پر آمادہ کرنا شروع کردیا حالانکہ میں صحیح پوزیشن کئی مرتبہ واضح کر چکا ہوں۔ ہم ابھی تک اس مرحلہ میں نہیں پہنچے ہیں جبکہ مختلف مقامات سے اپنے سب ہم خیالوں کو ایک جگہ سمٹ آنے کی دعوت دے سکیں۔ نہ ہمارے پاس جگہ ہے، نہ ذرائع ہیں، نہ صحیح معنوں میں ایسا دارالاسلام بن گیا ہے جس کی طرف دارالکفر سے ہجرت کرنا ضروری ہو اور نہ اصولاً یہ بات صحیح ہے کہ ’’مکی زندگی‘‘ کی بھٹی سے اچھی طرح گزرے بغیر لوگ مجرد عقیدہ و نصب العین قبول کرکے کسی ایک مقام پر جمع ہونے لگیں۔ کیونکہ اس طرح وہ مضبوط سیرت تو کبھی بن ہی نہیں سکتی جو ایک کافی مدت تک مخالف ماحول میں کشمکش کرنے اور استقامت دکھانے سے بنا کرتی ہے۔لہٰذا اس وقت لوگوں کو ہجرت کی دعوت دینا ہمارے کام کے لئے اصولاً غلط بھی ہے اور بے حد نقصان دہ بھی۔ اور اس پالیسی کے بھی خلاف ہے جس پر ہم اس وقت کام کر رہے ہیں۔
ہم اپنے مرکز کو ذرائع کی کمی اور مشکلات کے ساتھ بتدریج مضبوط بنا رہے ہیں۔ اور اس مرحلہ پر صرف ان لوگوں کو بلا رہے ہیں جن کی فی الواقع ہم کو ضرورت ہے۔ اس تدریجی نقشے کے خلاف ایک زائد آدمی کا آجانا بھی ہمارے مشکلات میں غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر ہماری کوشش یہ ہے کہ اس مرحلے پر ہم صرف آزمودہ آدمیوں ہی کو بلائیں جن کے متعلق ہمیں پوری طرح اطمینان ہو کہ وہ ساری اسکیموں میں ٹھیک ٹھیک مددگار ہوسکتے ہیں۔ ناآزمودہ آدمیوں کے بلا انتخاب جمع ہوجانے سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے اشخاص کے اجتماع سے کام میں مدد ملنے کے بجائے الٹی خرابیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔جب تک میں اپنے نقشہ کے مطابق ایک صحیح و مستحکم ماحول پیدا نہ کرلوں جس پر مجھے اطمینان ہو کہ اب جو اس ماحول میں آئے گا وہ اس کے مزاج کے مطابق ڈھلتا چلا جائے گا، اس وقت تک میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ غیر معلوم الحال اصحاب بطور خود مرکز میں آکررہنا شرع کردیں۔ سردست جو لوگ مرکز میں آنے کے امیدوار ہوں ان کو ایک کافی مدت تک اپنے ماحول میں رہ کر مشکلات کا مقابلہ کرکے، مخالفتوں کے مقابلہ میں صبرو استقامت دکھا کر اپنی اس قابلیت کا ثبوت دینا چاہئے کہ وہ مرکز میں بلائے جانے کے لائق ہیں۔
اب اخلاقی جرات کا تقاضا یہ ہے کہ آپ خود ان نوجوان دوست کو خط لکھیں کہ آپ نے جو ہجرت کرنے کی ترغیب دی تھی وہ آپ کی غلطی تھی اور آپ سے یہ غلطی جماعتی پالیسی کے خلاف سرزد ہوگئی تھی۔ اس کے ساتھ آپ انہیں تلقین کیجئے کہ وہ ایک طرف اپنی دینی معلومات کو ضروری حد تک مکمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسری ہماری جماعت کے نام پر کوئی کام کرنے سے پہلے ہمارے لٹریچر کو اچھی طرح پڑھ کر ہمارے مسلک اور طریق کار کو سمجھ لیں پھر اس کے مطابق اپنے ماحول میں ٹھیک ٹھیک کام کرنے کی کوشش کریں۔
آپ کی یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ آپ نے عزیز موصوف کو ان کے والد کے علی الرغم ہجرت کرنے کی رائے دی۔ اول تو مکہ میں مشرک و کافر ماں باپ کے متعلق جو طرز عمل اختیار کیا گیا تھا وہ بعینہ ان مسلمان ماں باپ کے معاملہ میں اختیار کرنا درست نہیں ہے جو ہمارے نزدیک خواہ کتنی ہی غفلت و ضلالت میں مبتلا ہوں مگر بہرحال ہیں مسلمان۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی مرحلہ پر والدین کی اجازت کے بغیر، بلکہ ان کے حکم کے خلاف کوئی اقدام کرنا اولاد کے لئے جائز ہو بھی سکتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کہ امیر جماعت تمام شرعی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ایسا کرنے کا حکم دے ایسے باضابطہ حکم کے بغیر کسی شخص کا بطور خود یہ فیصلہ کرلینا کہ یہ وقت والدین کی نافرمانی کر گزرنے کا ہے کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
عزیز موصوف کا جو خط براہ راست میرے پاس آیا ہے اس کو دیکھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ جماعت کو، اس کے نظام کو، اور اس کے طریق کار کو بالکل نہیں سمجھے ہیں اور ان کے ذہن میں جماعت کی پوزیشن کا کچھ عجیب تصور قائم ہوگیا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اس جماعت نے اپنا کوئی اسٹیٹ قائم کر لیا ہے اور وہ اسٹیٹ بھی بڑا دولتمند ہے۔ اس لئے ان کا خیال یہ ہے کہ انہیں یہاں آنے کے مصارف ہم بھیجیں گے، یہاں ان کی ضرورت کی کفالت بھی ہم کریں گے، اور ان کو سال میں دو مرتبہ گھر بھی ہم اپنے ہی خرچ پر بھیجتے رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس تصور کو لئے ہوئے اگر وہ دارالاسلام آنے پر آمادہ نہ ہوتے تو اور کیا کرتے۔ اور اگر ہماری دعوت ایسی ہی فیاضانہ ہو تو نیک نیت اہل ایمان میں سے کس کو اپنی نوکری چھوڑدینے یا مدرسے سے نکل آنے میں تامل ہو سکتا ہے۔ ان کی اس بات سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آپ کا طرز تبلیغ بہت خام ہے جس میں فہم کا عنصر کم اور جذباتی جوش کا عنصر زیادہ ہے،اسی وجہ سے ایسے لوگ جو ہمارے مسلک و طریق کار کو پانچ فیصدی بھی نہیں سمجھتے ہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمارے ساتھ آملنے کو پچانوے فیصدی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ براہ کرم اس طرز تبلیغ کی اصلاح کیجئے ورنہ جو پیچیدگی ان عزیز کے معاملہ میں پیش آئی ہے اس سے زیادہ آئندہ پیش آنے کا خطرہ ہے۔
یہ بات بھی اس سے پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ جب تک آپ سرکاری ملازمت میں ہیں قواعد ملازمت کے اندر رہتے ہوئے کام کیجئے۔ اول تو کسی سے تنخواہ لینے کے بعد ان شرائط کی پابندی نہ کرنا جن کے تحت وہ تنخواہ دے رہا ہے اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر آپ قواعد کے خلاف کام کریں گے اور اس کی پاداش میں برطرفی یا کسی اور قسم کی سزا پائیں گے تو اس سے آپ کی اخلاقی پوزیشن الٹی کمزور ہوجائے گی، حالانکہ اس وقت نظام جاہلیت کے خلاف ہمارا سب سے بڑا اسلحہ جنگ اگر کوئی ہے تو وہ اخلاق ہی ہے۔ اس لئے آپ نے طالب علم مذکورہ کو جس طرز کی تبلیغ کی اور اس کی وجہ سے جو باز پرس آپ سے ہوئی وہ ان ہدایات کے خلاف ہیں جو آپ کو مرکز سے دی گئی تھیں۔ اب آپ کو ان سوالات کے جواب میں جو آپ سے کئے گئے ہیں، بالکل سیدھے اور صاف طریقے سے صحیح صحیح بیان دینا چاہئے، لیکن جواب آپ کا سخت نہ ہونا چاہئے۔ زبان اور لب و لہجہ میں پو ر ی طرح معقولیت ہو۔ جو غلطی ہے اس غلطی کو تسلیم کر لیجئے۔ اور آپ کی اور اس جماعت کی جو صحیح پوزیشن ہے اس کو بے تکلف بیان کردیجئے۔
(ترجمان القرآن۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ ۶۴ھ۔ نومبر، دسمبر ۴۵ء)