عملی اسلام سے اجتناب کا مشورہ
سوال: تحریک اسلامی سے مجھے بہت دلچسپی ہے مگر چند روز سے ایک اہم اعتراض دماغ میں چکر لگا رہا ہے، جسے آپ کے سامنے رکھ کر رہنمائی چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان موجودہ طاغوتی نظام سے بالکل علیحدگی اختیار کر لیں تو ان کی حیثیت ہندوستان میں غلام یا اچھوت کی سی رہ جائے گی۔ پس کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ جیسے اعلیٰ دماغ حضرات مسلمانوں کو اس نظام سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش دے کر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہیں، تا آنکہ پوری مسلمان قوم کی ذہنیت ایک ہی طرزفکر کی حامل ہوجائے۔ اور پھر موقع آنے پر وہ یکدم نظام حق کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔
اگر تمام مسلمان آپ کی تحریک اسلامی کے ساتھ ہوگئے ہوتے تب تو طاغوتی نظام میں جذب ہوئے بغیر کامیابی کا امکان تھا، مگر اب جبکہ مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کے نام سے بھی واقف نہیں اورعلماء جن کا فرض ہی احیائے دین کی جدوجہد ہے اس کو ناقابل عمل بناتے ہیں۔ نظام باطل سے کٹ کر کامیابی حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ پھر کیا آپ اس پر متفق نہیں ہوں گے کہ ابھی آپ صرف تبلیغی کام کرتے رہیں اور جب بالعموم مسلمانوں کے ذہن تحریک اسلامی کو سمجھنے لگیں اس وقت عملی کام کا آغاز کیا جائے؟
جواب: آپ کا مطلب جہاں تک آپ کے خط سے سمجھ میں آیا ہے، یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف زبانی تبلیغ، تقریر اور مضامین و رسائل کے ذریعہ سے جاری رکھی جائے۔ اور جن اصولوں کی تبلیغ کی جائے ان پر خود عمل کیا جائے نہ دوسروں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے، پھر جب سارے مسلمانوں کے ذہن ہمارے خیالات سے متاثر ہوجائیں تب دفعۃً اٹھ کر انقلاب پیدا کر دیا جائے۔
خیال تو بہت بے ضرر اور بے خطرہ ہے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تبلیغ اور انقلاب کی فطرت اس کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ موثر اور نتیجہ خیز تبلیغ ہوتی ہی اس وقت ہے جبکہ تبلیغ کرنے والی پارٹی اپنے اصولوں پر عمل کرتی ہے اور ان پر عمل کرنے والوں کی تنظیم کرتی ہے۔ خالی خولی وعظ تو بہت دنوں سے اس ملک میں ہو رہے ہیں۔ ان کا کیا نتیجہ ہوا؟
یہ عجیب معاملہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہم کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم لکھتے اور چھاپتے ہو، کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے اور کچھ آپ جیسے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ صرف لکھو اور چھاپو، مسلمانوں کو عمل کرنے کے خطرہ میں کیوں ڈالتے ہو، ہماری درخواست یہ ہے کہ ان طعنوں اور مشوروں سے پہلے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم اپنی دعوت اور طریق دعوت دونوں میں حضرات انبیاء کرام کے پیرو ہیں۔ اس وجہ سے جس کو ہمیں کوئی مشورہ دینا ہو یا ہم پر اعتراض کرنا ہو، وہ اپنے مشورہ اور اعتراض پر حضرات انبیاء کے قول اورعمل کی دلیل پیش کرے۔ صرف مصلحت بازی اور خیال آرائی یا اندیشہ سازی ہماری نگاہوں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی، پس بہتر ہے کہ لوگ ہمیں اس سے معاف رکھیں۔
ترجمان القرآن، ربیع الثانی ۶۵ھ۔ مارچ ۴۶ء)