اسلام بلا جماعت
سوال: جو شخص آپ کی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتیٰ المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کر رہا ہو وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لئے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت دین حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لئے جدوجہد کرے۔ اور جدوجہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظام جماعت اور طریق جدوجہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس صورت میں ہم اس کو بر سر ہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لئے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد کے لئے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایسی زندگی کو کم از کم نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگر آدمی کو اپنے گردوپیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہو جو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لئے اسلامی طریقہ پر سعی کرنے والی ہو تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میں لانے کی سعی کرنی چاہئے اور اس کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے وہ اپنی انانیت چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہوجائے۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول 65ھ۔ اپریل64ء)