مزدوروں کی ہڑتالوں میں جماعت اسلامی کی پالیسی
سوال: آج کل ملک میں ہڑتالوں کا دور دورہ ہے۔ ہم لوگ جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور محنت پیشہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ایسے موقع پر ہم کیا روش اختیار کریں جبکہ ہمارے کارخانے یا محکمے میں ہڑتال ہو؟
جواب:سردست اس معاملہ میں ہماری پالیسی یہ ہے ۔
(۱) ۔جو مزدور یا محنت پیشہ لوگ ہمارے مسلک سے متاثر ہوں وہ ہڑتال کے زمانے میں کام پر تو نہ جائیں لیکن ہڑتالوں کے ہنگاموں اور مظاہروں سے بھی الگ رہیں۔
(۲)۔جن مطالبات کے لئے ہڑتال کی گئی ہے کے متعلق یہ رائے قائم کریں کہ آیا وہ منصفانہ ہیں یا غیر منصفانہ۔
(الف)۔منصفانہ مطالبات کو تمام جائز و معقول اور پر امن طریقوں سے تسلیم کرانے میں حصہ لیں مگر کسی فساد اور جھگڑے میں حصہ نہ لیں۔
(ب) ۔غیر منصفانہ مطالبات کے معاملے میں اپنے ہم پیشہ ہڑتالیوں سے صاف کہہ دیں کہ ہم تمہارے مطالبات کو صحیح نہیں سمجھتے لیکن قصداً تمہاری ہڑتال کو ناکام بنانے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے، اس لئے جب تک تم کام پر نہ جاؤ گے ہم بھی نہیں جائیں گے۔
(ج)۔ اگر مطالبات کا کچھ حصہ منصفانہ اور کچھ حصہ غیر منصفانہ ہو تو ہڑتالیوں اور مستاجروں (Emyloyers) دونوں کو مطلع کردیں کہ ہم ان مطالبات کے اتنے حصے کو صحیح اور اتنے حصے کو غلط سمجھتے ہیں۔
(۳)۔ جب کبھی کسی ہڑتال میں، یا مزدوروں کی کسی تحریک کے سلسلے میں سوشلزم کے نظریات کار فرما نظر آئیں، مثلاً مطالبات کی بنیاد یہ بیان کی جارہی ہو کہ طبقاتی جنگ ایک تاریخ تقاضا ہے، یا مقصد و نصب العین یہ پیش کیا جارہا ہوں کہ تمام ذرائع پیداوار پر سے شخصی ملکیت ختم کردی جائے اور انہیں قومی ملکیت بنا دیا جائے، تو ایسے کسی موقع پر خاموش نہ رہنا چاہئے بلکہ ان نظریات کی کھلم کھلا تردید کرنی چاہئے اور مزدوروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ نظریات بجائے خود بھی غلط ہیں اور ان میں تمہاری اپنی اصلاح بھی درحقیقت مضمر نہیں ہے۔ ان کے بجائے زیادہ صحیح اصول یہ ہیں جو اسلام پیش کرتا ہے۔حقیقی انصاف اگر قائم ہوسکتا ہے تو ان اصولوں پر ہی ہوسکتا ہے۔
آخرکار جو چیز ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں اشتراکیوں کے زیر اثر نہ رہیں بلکہ ہمارے زیر اثر آجائیں تاکہ ہم طبقاتی جنگ کے بجائے طبقاتی صلح، اور مارکسی اشتراکیت کے بجائے اسلامی عدل کے اصولوں پر محنت پیشہ طبقوں کو ان کے جائز حقوق دلواسکیں۔
(ترجمان القرآن۔ رجب ۶۵ھ۔ جون ۴۶ء)