ملکی فسادات میں ہمارا فرض
سوال: ہم ایک ہندو اسٹیٹ میں رہتے ہیں جہاں برطانوی ہند کے مقابلے میں کتنی ہی زائد پابندیاں عائد ہیں۔ محض نماز روزے کی آزادی ہے، اور یہ آزادی بھی برادران وطن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کو تو ہمارے نام سے بھی نفرت ہے اور جو مسلمان جتنا ہی زیادہ پابند شرع ہے وہ اتنا ہی زیادہ ان کے بغض کا مستحق ہے۔ ان حالات میں آپ کا کہنا کہ ’’جماعت اسلامی کی پالیسی تو فسادات میں غیر جانبدار رہنے کی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’یہ جماعت تو مظلوم کو مظلوم اور ظالم کو ظالم کہے گی اور بوقت ضرورت بے لاگ گواہیاں دے گی۔‘‘ اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ چنانچہ میرے ایک دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اس وقت تک خاموش بیٹھے رہیں جبکہ ہمیں گواہی دینے کا موقع آئے؟ شہر میں فساد کے شعلے بھڑک اٹھیں اور ہم بس یہ دیکھتے رہیں کہ کون کس پر ظلم کرتا ہے؟ پھر جو قوم صرف مسلمان کے نام کی دشمن ہے وہ ایسے موقع پر خود ہم پر ہاتھ اٹھانے سے کب باز رہ جائے گی؟ وہ اس بات کا لحاظ ہی کیوں کرنے لگیں کہ یہ فساد میں شریک نہیں ہیں۔ صرف تماش بین کی حیثیت رکھتے ہیں؟ نیز اگر میرے کسی مسلمان پڑوسی پرغیر مسلموں نے ظالمانہ طور پر حملہ کردیا تو اسلامی نقطہ نظر سے میرے لئے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ خاموش بیٹھا رہوں اور اس کی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں نہ ڈال دوں؟
موصوف یہ خیال کرتے ہوئے بطور کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے دو حل بتاتے ہیں۔
ایک تو یہ ہے کہ اگر ہم مقابلے کی قدرت رکھتے ہوں تب تو اپنی مدافعت کی خاطر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ دوسرا یہ کہ چونکہ ہم اقلیت میں ہیں اس لئے ایسی جگہ ہجرت کر جائیں جہاں ہماری اکثریت ہو۔
امید ہے کہ آنجناب ان حالات میں ہماری مناسب رہنمائی فرمائیں گے۔ ادھر ریاست کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان میں پچاس فیصدی بالکل جاہل اور آباپرست اور پچیس فیصدی نیم خواندہ مگر پکے پیر پرست، بقیہ پچیس فیصدی تعلیم یافتہ مگر ان میں سے بیس علم دین سے کورے اور خانقاہیت سے متاثر اور باقی پانچ دنیا کے بندے۔‘‘
جواب: آپ نے ریاست گوالیار کے مسلمانوں کی جو حالت لکھی ہے اس کو پڑھ کر افسوس ہوا، لیکن افسوس کرنے سے وہ حق ادا نہیں ہوتا جو ہم پر اور آپ پر عائد ہوتا ہے۔ بندگان خدا جس قدر زیادہ گمراہی اور اخلاقی پستی میں مبتلا ہوں اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ ایک مومن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح کے لئے کوشش کرے۔
آپ نے جن صاحب کا سوا ل نقل کیا ہے ان کی خدمت میں میری طرف سے عرض کردیجئے کہ اگر سوال محض بیٹھنے اور تماشا دیکھنے کا ہوتا تو یقیناً میرا جواب کچھ اور ہوتا۔ میں نے جو جواب اس سے پہلے متوقع فساد کے سلسلہ میں دیا تھا وہ دراصل ان لوگوں کے پیش نظر رکھتے ہوئے دیا تھا جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی محض بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے لئے نہیں بنی ہے۔
اس جماعت کے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ دنیا میں خیر و عدل کا نظام قائم کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد میں یہ ضروری ہے کہ وہ قومی نفسانیتوں اور قومیت کے جھگڑوں سے الگ رہ کر خالص حق کے حامی و داعی کی حیثیت سے کام کریں۔ بلاشبہ عامہ مسلمین کے ساتھ ان کا قومی تعلق ضرور ہے، اور اگر عام مسلمانوں اور ان کے غیر مسلم ہمسایوں کے درمیان فی الواقع دین کی بنا پر لڑائی ہو تو اس سے الگ رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ نہ مسلمان دین کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور نہ وہ کشمکش، جو ان کے اور غیر مسلموں کے درمیان برپا ہے، اس کی بنیاد یا اس کا مقصود دین ہے۔ اس لئے ہم اس کشمکش میں مسلمانوں کے مبتلاہونے اور مظلوم یا ظالم بننے پر افسوس تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتے۔
ہماری یہ عدم شرکت اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم محض تماش بین ہونے کی حیثیت سے بیٹھے دیکھتے رہیں گے، بلکہ ہم عملاً فسادیوں کو نیکی اور انصاف کی تلقین کریں گے برائی سے روکیں گے۔ ظالم کی مخالفت کریں گے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان۔ مظلوم کی حمایت کریں گے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان۔ اور اپنے طرز عمل سے کریں گے کہ ہم فی الواقع انصاف کے علمبردار اور بھلائی کے داعی ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک شبہ اور باقی رہتا ہے، جس کو صاف کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ہم خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ غیر جانبدار بنیں لیکن جب کہ ہمارے نام، لباس اور معاشرے عام مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہیں، یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم خود بھی ان مظالم کے اندر رہ کر ان بے انصافیوں کا تختہ مشق بننے سے بچ جائیں جو کسی مقام کی غیر مسلم اکثریت غلبہ پانے کی صورت میں عام مسلمانوں پر کر رہی ہو؟
اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر آپ کسی مقصد عظیم کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تو اس جدوجہد کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی تمام قوتوں کو صرف اسی ایک مقصد کی خدمت کے لئے وقف رکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔ اس طرز عمل پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہنے میں جو خطرات اور نقصانات بھی ہوں بہرحال ان کو برداشت کرنا چاہئے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مسلمان کے لئے اس کے تحفظ کی کوئی گارنٹی اس کے اپنے اخلاق کے سوا نہیں ہے۔ عام مسلمانوں نے اپنے آپ کو اس وقت جس حالت میں مبتلا کرلیا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کے لئے جینا اور مرنا چھوڑ دیا ہے اور ان اخلاق فاضلہ سے بھی کنارہ کشی کرلی ہے جو اہل ایمان کے امتیازی اخلاق تھے۔ اسی چیز نے ان کو کمزور بھی کیا اور ان کے وقار کو بھی صدمہ پہنچایا۔ اب اگر اس حالت سے آپ نکل سکتے ہیں تو اس طرح نہیں کہ انہی غلطیوں میں اور انہی کے نتائج میں الجھتے چلے جائیں جو اب تک ہوتی رہی ہیں بلکہ صرف اس طرح نکل سکتے ہیں کہ جس جس مسلمان کو بھی ہوش آتا جائے وہ نفسانیت اور دنیا پرستی سے بالاتر ہوکر دعوت الی الخیر کو اپنا مشغلہ زندگی بناتا جائے اور ان اخلاق فاضلہ سے اپنے آپ کو سنوارے جو داعیان حق کے شایان شان ہوں۔ جو شخص بھی ایسا کرے گا وہ اپنے گردوپیش کے سارے انسانوں پر، خواہ وہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اپنا ایسا اخلاقی وقار قائم کردے گا جو کسی پولیس یا فوج کی مدد سے قائم نہیں ہوسکتا۔
آپ کہتے ہیں کہ ہم ہندو ریاست میں ہیں اور قلیل التعداد ہیں اور وہاں مسلمانوں کے لئے کوئی عزت اور امن نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ بھول گئے ہیں کہ اب سے آٹھ نو برس پہلے خواجہ معین الدین رحمتہ اللہ علیہ اجمیر کی ہندو ریاست میں جب آکر مقیم ہوئے تھے تو حالات اس سے بہتر تھے یا بدتر؟ اس وقت کس چیز نے ان کی حفاظت کی تھی؟
میرے بر ادران دینی خواہ میری بات سنیں یا نہ سنیں مگر میں تو یہی کہتا رہوں گا کہ تمہارے لئے اب اس کے سوا کسی چیز میں خیریت نہیں ہے کہ سچے مسلمان بنو اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا جو فرض ہے اسے ادا کرو۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان ۶۵ھ۔ اگست ۴۶ء)