کیا مسیحی مشنریوں کے لیے مسلم ممالک کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں؟
سوال: امریکہ سے میرے ایک دوست نے یہ خط لکھا ہے کہ وہاں کے عرب اور مسلمان طلبہ آپ سے ان دو سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔ سوالات یہ ہیں:
۱۔ کیا اسلامی ملکوں کو دوسرے مذاہب کے مبلغوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ خاص طور پر عیسائی مشنریوں پر؟ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
۲۔ اگر پابندی لگانا دینی طور پر لازم ہے تو عیسائی بھی اپنے ممالک میں مسلمان مبلغوں پر پابندی لگادیں گے۔ اس صورت میں اسلام کا پیغام عالم انسانیت تک کیسے پہنچایا جاسکتا ہے؟
جواب: ان سوالات کو پیش کرتے ہوئے آپ کے دوست نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ اگر ہم مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کا داخلہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مغربی مشنریوں کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے، ورنہ ان کے مشنریوں پر اپنا دروازہ بند کرکے ہمارا ان سے یہ کہنا کہ ہمارے دین کی تبلیغ کے لیے وہ اپنا دروازہ کھلا رکھیں، انصاف اور معقولیت کے خلاف ہوگا۔ مگر میرا خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ میرے نزدیک عیسائی مشنری سینکڑوں برس سے دنیا کے مختلف ملکوں میں جو طریقے اپنی تبلیغ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، اور جس بڑے پیمانے پر چند مغربی ملکوں سے اس کام کے لیے سرمایہ فراہم ہوتا رہا ہے، اور اس سرمائے سے مشن کے تختہ مشق ملکوں میں جو گُل کھلائے جاتے رہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے کوئی معقول آدمی انصاف کے نام پر ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ ہم ان مشنریوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں۔ بلکہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم تمام بیرونی مشنریوں کو بلاتاخیر اپنے ملکوں سے نکال باہر کریں اور آئندہ کے لیے ان میں سے کسی کو اپنے ہاں نہ گھسنے دیں۔ اس کے جواب میں اگر اسلام کے مشن اور مشنریوں کا داخلہ مغربی ملکوں کی طرف سے بطور انتقام بند بھی کردیا جائے تو ہمیں اس کی پروا نہ کرنی چاہیے۔ لیکن ان کی طرف سے یہ انتقامی کاروائی بجائے خود قطعی نامعقول اور خلاف انصاف ہوگی، کیونکہ مسلمانوں نے کبھی دنیا کے کسی ملک میں ’’تبلیغ دین‘‘ کے نام سے وہ ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے ہیں، اور نہ آج کہیں کر رہے ہیں، جو عیسائی مشنریوں کے طرۂ امتیاز ہیں اور کسی مغربی ملک کو ہمارے کسی مشن یا کسی مشنری سے کبھی ان شکایات کا برائے نام بھی کوئی موقع نہیں ملا ہے جن سے ہمارے سینے فگار ہیں۔
میری اس بات میں اگر کسی کو شک ہو تو اسے چاہیے کہ ایشیا اور افریقہ میں عیسائی مشنریوں کے کارناموں کی تاریخ سے کچھ واقفیت حاصل کرے اور ان طریقوں کا مطالعہ کرے جو انہوں نے اپنی تبلیغ کے لیے مختلف ملکوں میں استعمال کیے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ مشن دنیا کے اکثر و بیشتر ملکوں میں مغربی استعمال کا ہر اول دستہ رہے ہیں۔ افریقہ کے ایک لیڈر نے اپنے براعظم میں ان کے کارنامے کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اہل مغرب جب ہمارے ہاں آئے تو ان کے ہاتھ میں کتاب تھی اور ہمارے ہاتھ میں زمین۔ کچھ مدت بعد دیکھا گیا کہ کتاب ہمارے ہاتھ میں ہے اور زمین ان کے ہاتھ میں‘‘۔
استعمار کا راستہ ہموار کرنے کے بعد جہاں بھی یہ لوگ کسی مغربی قوم کو کسی ایشیائی یا افریقی ملک پر مسلط کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں وہاں انہوں نے اقتدار اور دولت کی دوہری مدد سے کام لے کر اپنے دین کو زبردستی بھی قوموں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اور روپے کے زور سے بھی ان کے ایمان و ضمیر کو خریدا ہے۔ بعض ملکوں میں استعمار نے تعلیم کا پورا شعبہ ان کے حوالے کردیا اور انہوں نے کسی کو اس وقت تک تعلیم نہیں دی جب تک وہ عیسائی نہ ہوگیا، یا بدرجہ آخر اپنا نام بدل کر عیسائی نام رکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بعض ملکوں میں انہوں نے پورے پورے علاقوں کو ازروئے قانون اپنی محفوظ چراگاہ بنوا لیا اور ان میں کسی دوسرے مذہب کے مبلغ تو درکنار محض پیرو کے داخلے میں بھی رکاوٹیں عائد کرادیں۔ جنوبی سوڈان ان کی بد ترین اور نمایاں ترین مثال ہے۔ انگریزی حکومت نے اس کو بالکل عیسائی مشنریوں کے حوالے کردیا تھا اور شمالی سوڈان کے کسی مسلمان کو خاص پرمٹ لیے بغیر وہاں جانے نہیں دیا جاتا تھا، خواہ وہ تبلیغ کے لیے نہیں بلکہ اپنے کسی ذاتی کام ہی کے لیے وہاں جا رہا ہو۔ سوڈان کی آزادی کے بعد جب قومی حکومت آئی اور اس نے جنوبی سوڈان میں مشنریوں کی اس امتیازی حیثیت کو ختم کردیا تو انہوں نے وہاں بغاوت کرادی اور آج کئی برس ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ حبش کی عیسائی حکومت اور گرد و پیش کے دوسرے عیسائی علاقوں کی مدد سے حکومت سواڈن کے خلاف فتنے پر فتنے برپا کرائے چلے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ مسائل انہوں نے جنوبی ویتنام میں پیدا کیے، جہاں عیسائی اقلیت نے بودھ اکثریت کو عملاً اپنا تابع فرمان بنا رکھنے کے لیے بار بار سازشیں کی ہیں۔
خود ہمارے ملک میں انگریزی اقتدار کے آتے ہی اول اول تو یہ مشنری انتہائی جارحانہ انداز میں مسلمانوں کے دین پر حملہ آور ہوئے تھے۔ پھر جب انگریزی حکومت کو اس سے سیاسی پیچیدگیاں رونما ہونے کا خطرہ لاحق ہوا، تو یہ پالیسی بدل کر نیا طریقہ اختیار کیا گیا کہ ان کے مدرسوں، کالجوں، ہسپتالوں اور مختلف نوعیت کے دوسرے اداروں کو طرح طرح کی وسیع مراعات عطا کی گئیں، مفت یا برائے نام قیمت پر زمینیں دی گئیں، بیش قرار مالی گرانٹ دیئے گئے، بیرونی ممالک سے بھی ان پر روپے کی بارش ہوتی رہی اور ان ذرائع سے انہوں نے ایک طرف لالچ کے ہتھیار استعمال کرکے غریبوں کے دین و ایمان خریدے اور دوسری طرف انہوں نے اس کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی کہ جو مسلمان ان کے ہتھے چڑھیں وہ اگرعیسائی نہ بنائے جاسکیں تو مسلمان بھی نہ رہنے دیئے جائیں۔
شرقِ اوسط میں یہی وہ فتنہ پرداز تھے جنہوں نے ترکوں کو تورانی قومیت اور عربوں کو عربی قومیت کے سبق پڑھا پڑھا کر آخر ایک دوسرے سے لڑادیا اور دولت عثمانیہ کے ٹکڑے اڑادیئے۔ اسلام کی اولین علمبردار، یعنی عرب قوم کے اندر گمراہی کے اتنے ہی بیج انہوں نے بوئے کہ ان میں بڑی بڑی سیاسی اور ادبی و علمی، اور ثقافتی تحریکیں اس بنیاد پر اٹھنے لگیں کہ اصل چیز عرب قومیت ہے نہ کہ اسلام۔
سوال یہ ہے کہ یہ حرکات واقعی ’’تبلیغ دین‘‘ جیسے معصوم نام سے موسوم کیے جانے کے لائق ہیں اور ان کے مرتکبین کو واقعی یہ حق پہنچتا ہے کہ انہیں مذہب کے نام پر اپنا کام کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے؟ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی اس تاریخ اور ان کے ان کارناموں کو دیکھ کر کوئی انصاف پسند اور معقول آدمی کبھی یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا کے ملکوں میں ان کے لیے ’’مذہبی تبلیغ‘‘ کے حقوق محفوظ رہنے چاہیے۔ یا یہ رائے ظاہر کرسکتا ہے کہ اگر ہم اپنے ملکوں میں ان مشنریوں کا داخلہ بند کردیں تو مغربی ممالک اپنے ہاں ہمارے مشنریوں کا داخلہ بند کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ مذہبی تبلیغ کے جس منظم ادارے کو ’’مشن‘‘ اور جس پیشہ ور مبلغ کو ’’مشنری‘‘ کہا جاتا ہے وہ پہلے تو مسلمانوں میں قطعی مفقود تھا اور اب بھی وہ شاذو نادر ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ اسلام کی تبلیغ ہمیشہ عام افراد مسلمین نے کی ہے جو اپنے نجی کاموں کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں گئے ہیں۔ ان کو جہاں بھی لوگوں سے سابقہ پیش آیا وہاں لوگ ان کی باتیں سن کر اور ان کے طرزِ عبادت اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ اس نوعیت کی تبلیغ کا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اس لیے اگر مغربی ممالک اسلام کے مشن اور مشنری کا داخلہ اپنے ہاں روک بھی دیں تو ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ جب تک مسلمان کا داخلہ کسی جگہ کھلا ہے اسلام کے داخلے کا راستہ بھی وہاں کھلا ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۷ء)