اصطلاحات و سلاسلِ تصوُّف اور حُکّام کو خط و کتابت کے ذریعہ دعوت دینا
سوال: سلسلۂ تصوّف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں۔ قطب، غوث، ابدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔ نیز تصوف کے سلاسل اربعہ کے متعلی بھی اپنی رائے عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔
ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت حسن بصریؒ کو حضرت علیؓ نے خرقہ عطا فرمایا تھا اور یہ تمام طرق فقر حضرت علیؓ سے شروع ہوتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ملا علی قاریؒ کی موضوعات کبیر ہے۔ روایت خرقہ کے متعلق موصوف کی تحقیق ملاحظہ فرما کر آپ اس پر مدلّل تبصرہ فرمائیں۔ عبارت یہ ہے:
حدیث لبس الخرقۃ للصوفیۃ وکون الحسن البصری لبسھا من علیؓ قال ابن دحیۃ وابن الصلاح انہ باطل، وکذا قال العسقلانی انہ لیس فی شئی من طرقھا ما یثبت ولم یرد فی خبرٍ صحیح ولا حسن ولا ضعیف ان النبی ﷺ لبس الخرقۃ علی الصورۃ المتعارفۃ بین الصوفیۃ لاحد من الصحابۃ ولا امر احداً من الصحابۃ بفعل ذالک وکل ما یُروی من ذالک صریحاً فباطلٌ۔ قال ثُمّ ان من الکذب المفتری قول من قال علیاً البس الخرقۃ للحسن البصری فان ائمۃ الحدیث لم یثبتوا للحسن من علیؓ سماعاً فضلاً عن ان یلبسہ الخرقۃ۔
ترجمہ: ’’صوفیہ کے خرقہ پہننے کی حدیث، اور یہ قصہ کہ حسن بصریؒ کو حضرت علیؓ نے خرقہ پہنایا تھا، ابن دحیہ اور ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ باطل ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ جن طریقوں سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے، اور کسی صحیح یا حسن بلکہ ضعیف روایت میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ نبیﷺ نے صوفیہ کے متعارف طریقے پر صحابہ میں سے کسی کو خرقہ پہنایا ہو یا کسی صحابی کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہو۔ اس سلسلے میں جو کچھ روایت کیا جاتا ہے وہ باطل ہے۔ پھر ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت حسن بصریؒ کو خرقہ پہنایا تھا۔ ائمہ حدیث کے نزدیک تو حضرت حسنؒ کا حضرت علیؒ سے سماع تک ثابت نہیں ہے کجا کہ ان سے خرقہ پہننا‘‘۔
صوفیہ کے درمیان سبع لطائف کا ایک تدریجی اور ارتقائی طریقہ مروج ہے۔ کتب احادیث میں یہ طریق ذکرو فکر مروی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بھی رائے گرامی تحریر فرمائیں۔
میں جناب کی توجہ ایک اچھی تجویز کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں میری رائے ہے کہ جس طرح مجدّد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ نے اپنے دور کے اکابرواعیان اور حکام سلطنت امرا و وزرا کی طرف پُراز نصائح مکتوبات لکھ کر تبلیغ حق کا فریضہ ادا کیا، آپ بھی یہ طریق کار اختیار فرمائیں۔
جواب: تصوف کی جن اصطلاحات کا آپ نے ذکر کیا ہے ان میں سے صرف ابدال کا ذکر حضرت علیؓ کے ایک قول میں ملتا ہے۔ باقی رہے غوث، قطب اور قیوم، تو ان کا کوئی ذکر نبیﷺ کے ارشادات، یا صحابہ و تابعین کے اقوال میں نہیں ملتا۔ اور خود ابدال کے متعلق بھی جو عام تصورات صوفیہ کے ہاں پائے جاتے ہیں ان کی طرف کوئی اشارہ حضرت علیؓ کے اس قول میں نہیں ہے جس سے یہ اصطلاح لی گئی ہے۔
تصوف کے سلاسل اربعہ کے متعلق میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ ان سلسلوں کی ابتدا ایسے بزرگوں سے ہوئی جو یقیناً صلحائے امت میں سے تھے اور ان کا مقصود بھی تزکیہ و اصلاح تھا، جس کے ایک پاکیزہ مقصد ہونے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جس طرح مسلمانوں کی زندگی کے دوسرے شعبے بتدریج انحطاط کے شکار ہوئے اور ان میں صحیح و غلط کی آمیزش ہوتی چلی گئی، اسی طرح یہ سلسلے بھی اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ حالت پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے قرآن و سنت دنیا میں محفوظ ہیں۔ ان کی رہنمائی میں ہم جہاں اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں صحیح و غلط کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں، سلاسل تصوف کے افکار و اعمال میں بھی یہ تمیز ممکن ہے۔
حضرت حسن بصریؒ کو حضرت علیؒ سے خرقہ ملنے کی جو روایت اہل تصوف کے ہاں مشہور ہے، علم حدیث کی رو سے اس کی کوئی اصل نہیں۔ آپ نے ملا علی قاریؒ کی جو عبارت نقل کی ہے، وہ بالکل درست ہے
صوفیہ کے ہاں تزکیہ و تعلیم و تربیت کے جو طریقے رائج ہیں ان میں سے اکثر ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہیں، کم ہی چیزیں ایسی ہیں جن کا نشان عہد رسالت اور عہد صحابہ و تابعین میں ملتا ہو۔
حضرت مجدّد الف ثانی کے طریقے پر ارباب اقتدار سے مراسلت کرنے کا جو مشورہ آپ نے دیا ہے اس پر میں ضرور عمل کرتا اگر اس گروہ میں کوئی صاحب مجھے ایسے ملتے جو مجھ سے حسن ظن اور مخلصانہ تعلق بھی رکھتے ہوں، تاکہ میرا ان سے خطاب کرنا مفید ہوسکے اور اس کے ساتھ وہ اس گروہ میں کچھ نہ کچھ با اثر بھی ہوں کہ ان کی کوششوں سے کوئی اصلاح کی صورت بن سکے۔ حضرت مجدّد نے اپنے مکاتیب میں جن لوگوں سے بھی خطاب فرمایا ہے ان کے اندر یہ دونوں شرطیں پائی جاتی تھیں۔
(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۵ء)