سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 2
اب میں اصل مسائل کی طرف آتا ہوں جو اس سلسلئہ مضامین میں زیر بحث آئے ہیں۔
اقرباء کے معاملے میں حضرت عثمانؓ کے طرز عمل کی تشریح
سیدنا عثمانؓ نے اپنے اقرباء کے معاملے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا اس کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ شبہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ کسی بد نیتی پر مبنی تھا۔ ایمان لانے کے وقت سے ان کی شہادت تک ان کی پوری زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے مخلص ترین اور محبوب ترین صحابیوں میں سے تھے۔ دین حق کے لیے ان کی قربانیاں، ان کے نہایت پاکیزہ اخلاق، اور ان کے تقویٰ و طہارت کو دیکھ کر آخر کون صاحبِ عقل آدمی یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس سیرت و کردار کا انسان بد نیتی کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرسکتا ہے جس کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں خویش نوازی (NEPOTISM) کہا جاتا ہے دراصل ان کے اس طرز عمل کی بنیاد وہی تھی جو انہوں نے خود بیان فرمائی ہے کہ وہ اسے صلۂ رحمی کا تقاضا سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ قرآن و سنت میں جس صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اس کا تقاضا اسی طرح پورا ہوسکتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ جو بھلائی کرنا بھی آدمی کے اختیار میں ہو وہ اس سے دریخ نہ کرے۔ یہ نیت کی غلطی نہیں بلکہ رائے کی غلطی یا بالفاظ دیگر اجتہادی غلطی تھی۔ نیت کی غلطی وہ اس وقت ہوتی جبکہ وہ اس کام کو ناجائز جانتے اور پھر محض اپنے مفاد یا اپنے اقرباء کے مفاد کے لیے اس کا ارتکاب کرتے۔ لیکن اسے اجتہادی غلطی کہنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کیونکہ صلۂ رحمی کے حکم کا تعلق ان کی ذات سے تھا نہ کہ ان کے منصبِ خلافت سے۔ انہوں نے زندگی بھر اپنی ذات سے اپنے اقرباء کے ساتھ جو فیاضانہ حسنِ سلوک کیا وہ بلاشبہ صلۂ رحمی کا بہترین نمونہ تھا۔ انہوں نے اپنی تمام جائداد اور ساری دولت اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردی اور خود اپنی اولاد کو ان کے برابر رکھا۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، مگر صلۂ رحمی کا کوئی حکم خلافت کے عہدے سے تعلق نہ رکھتا تھا کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے بھی اپنے اقرباء کو فائدہ پہنچانا اس حکم کا صحیح تقاضا ہوتا۔
صلۂ رحمی کے شرعی احکام کی تاویل کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ نے بحیثیت خلیفہ اپنے اقرباء کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے کسی جُزکو بھی شرعاً ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ خلیفہ کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہ دے جو اس کے خاندان یا برادری سے تعلق رکھتا ہو، نہ خُمس کی تقسیم یا بیت المال سے امداد دینے کے معاملہ میں کوئی ایسا ضابطہ شرعی موجود تھا جس کی انہوں نے کوئی خلاف ورزی کی ہو۔ اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کی جس وصیت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بھی کوئی شریعت نہ تھی جس کی پابندی حضرت عثمانؓ پر لازم اور خلاف ورزی ناجائز ہوتی۔ اس لیے ان پر یہ الزام ہر گز نہیں لگایا جاسکتا کہ انہوں نے اس معاملہ میں حدِّ جواز سے کوئی تجاوز کیا تھا۔ لیکن کیا اس کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے کہ تدبیر کے لحاظ سے صحیح ترین پالیسی وہی تھی جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے اپنے اقرباء کے معاملہ میں اختیار فرمائی اور جس کی وصیت حضرت عمرؓ نے اپنے تمام امکانی جانشینوں کو کی تھی؟ اور کیا اس بات کو ماننے میں بھی تامل کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے اس سے ہٹ کر جو پالیسی اختیار کی وہ بلحاظِ تدبیر نامناسب بھی تھی اور عملاً سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوئی؟ بلاشبہ حضرت والا کو ان نقصانات کا اندازہ نہیں تھا جو بعد میں اس سے ہوئے، اور یہ تدبیر کوئی احمق ہی خیال کرسکتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس ارادے سے کیا کہ یہ نتائج اس سے برآمد ہوں۔ لیکن تدبیر کی غلطی کو بہرحال غلطی ماننا پڑے گا۔ کسی تاویل سے بھی اس بات کو صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ ریاست کا سربراہ اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کو حکومت کا چیف سیکرٹری بنادے، اور جزیرۃ العرب سے باہر کے تمام اسلامی مقبوضات پر اپنے ہی خاندان کے گورنر مقرر کردے۔ (یہ واضح رہے کہ اس زمانے کے نظم و نسق کی رو سے افریقہ کے تمام مفتوحہ علاقے مصر کے گورنر کے ماتحت، شام کا پوراصوبہ دمشق کے گورنر کے ماتحت اور عراق، آذربائیجان، آرمینیا اور خراسان و فارس کے تمام علاقے کوفہ و بصرہ کے گورنر کے ماتحت تھے۔ سیدنا عثمانؓ کے زمانہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان تمام صوبوں کے گورنر انہی کے رشتہ دار تھے۔ یہ ناقابل انکار تاریخی واقعات ہیں جنہیں واقعہ کی حد تک موافق و مخالف سب نے مانا ہے اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ واقعۃً ایسا نہیں ہوا تھا)۔
اس تدبیر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بہت سے بزرگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ اپنے خاندان کے جن لوگوں کو حضرت عثمانؓ نے عہدے دیئے تھے ان میں سے اکثر حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی عہدے پاچکے تھے۔ مگر یہ بڑا کمزور استدلال ہے۔ اول تو حضرت عمرؓ نے اپنے رشتے داروں کو عہدے نہیں دیئے تھے بلکہ دوسرے لوگوں کو دیئے تھے جن میں حضرت عثمانؓ کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ یہ چیز کسی کے لیے بھی دل کی جلن کا موجب نہ ہوسکتی تھی۔ دل کی جلن لوگوں کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب سربراہ مملکت خود اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دینے لگے۔ دوسرے، حضرت عمرؓ کے زمانے میں ان لوگوں کو اتنے بڑے عہدے کبھی نہیں دیئے گئے تھے جو بعد میں ان کو دے دیئے گئے۔ عبداللہ ؓبن سعد بن ابی سرح ان کے زمانہ میں مصر کے صرف ایک فوجی افسر تھے۔ حضرت معاویہؓ صرف دمشق کے علاقے کے گورنر تھے۔ ولید ؓبن عقبہ صرف الجزیرہ کے عرب علاقے پر حاکم بنائے گئے تھے۔ سعید بن العاص ؓ اور عبداللہ بن عامرؓ بھی چھوٹے چھوٹے عہدوں پر رہے تھے۔ یہ صورت ان کے زمانے میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ جزیرۃ العرب سے باہر کے تمام اسلامی مقبوضات ایک ہی برادری کے گورنروں کے ماتحت ہوں اور وہ برادری بھی خلیف وقت کی اپنی برادری ہو۔
یہ بات بھی ناقابل انکار ہے کہ یہ سب لوگ جن کو حضرت عثمانؓ کے آخری عہد میں اتنی بڑی اہمیت حاصل ہوئی، طُلَقاء (طُلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ نے معافی دے دی تھی) میں سے تھے، اور ان کو رسول اللہﷺ کی صحبت و تربیت سے فائدہ اٹھانے کا بہت کم موقع ملا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ حضورؐکی بھی یہ پالیسی نہ تھی اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ بھی اس پر عامل نہیں ہوئے کہ ان لوگوں کا مقاطعہ کیا جائے، یا انہیں اسلامی ریاست میں کام کرنے کے ہر موقع سے الگ رکھا جائے۔ حضورؐ نے اور آپ کے بعد شیخینؓ نے ان کی تالیف قلب اور ان کی تربیت کرکے ان کو معاشرہ میں اچھی طرح جذب کرنے کی کوشش فرمائی تھی اور ان سے ان کی استعداد کے مطابق کام بھی آپؐ اور دونوں خلفاء لیتے رہے۔ مگر یہ پالیسی نہ حضورؐ کی تھی اور نہ شیخینؓ کی کہ سابقین اولین کے بجائے اب ان لوگوں کو آگے بڑھایا جائے اور مسلم معاشرے اور ریاست کی رہنمائی و کارفرمائی کے مقام پر یہ فائز ہوں۔ بعد کے اوقات سے، جبکہ بنی امیہ کے ہاتھ میں پورا اقتدار آیا، یہ بات عملاً ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ چاہے غیر دینی سیاست کے ماہر اور انتظامی اور فوجی لحاظ سے بہترین قابلیتوں کے مالک ہوں، لیکن امت مسلمہ کی اخلاقی قیادت اور دینی سربراہی کے لیے موزوں نہ تھے۔ یہ حقیقت تاریخ میں اتنی نمایاں ہے کہ کوئی وکالت ِصفائی اس پر پردہ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
حضرت معاویہؓ کو مسلسل ۱۶۔۱۷ سال ایک ہی صوبے پر گورنر رکھنا بھی شرعاً ناجائز نہ تھا۔ مگر سیاسی تدبیر کے لحاظ سے نامناسب ضرور تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خواہ مخواہ کسی قصور کے بغیر ان کو معزول ہی کردیا جاتا۔ صرف یہ بات کافی تھی کہ ہر چند سال کے بعد ان کا تبادلہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے کی گورنری پر کیا جاتا رہتا۔ اس صورت میں وہ کسی ایک صوبے میں بھی اتنے طاقتور نہ ہوسکتے تھے کہ کسی وقت مرکز کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہونا ان کے لیے ممکن ہوتا۔
بیت المال سے اقرباء کی مدد کا معاملہ
بیت المال سے اپنے اقرباء کی مدد کے معاملہ میں حضرت عثمانؓ نے جو کچھ کیا اس پر بھی شرعی حیثیت سے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ معاذ اللہ انہوں نے خدا اور مسلمانوں کے مال میں کوئی خیانت نہیں کی تھی۔ لیکن اس معاملہ میں بھی ان کا طریقِ کار بلحاظ تدبیر ایسا تھا جو دوسروں کے لیے وجہِ شکایت بنے بغیر نہ رہ سکا۔
محمد بن سعد نے طبقات میں امام زہری کا یہ قول نقل کیا ہے:
واستعمل اقرباء ہٗ واھل بیتہٖ فی الستّ الاواخر، وکتب لمروان بخمس مصر، واعطیٰ اقرباء ہ المال و تاوّل فی ذالک الصلۃ الّتی امر اللہ بھا، واتخذ الاموال واستسلف من بیت المال وقال ان ابابکر و عمر ترکا من ذالک ما ھولھما وانی اخذتہٗ فقسمتہٗ فی اقربائی فانکر الناس علیہ۔ (طبقات ابن سعد، ج ۳، ص ۶۴)
’’حضرت عثمانؓ نے اپنی حکومت کے آخری ۶ سالوں میں اپنے رشتہ داروں اور خاندان کے لوگوں کو حکومت کے عہدے دیئے، اور مروان کے لیے مصر کا خمس (یعنی افریقہ کے اموالِ غنیمت کا خمس جو مصر کے صوبے کی طرف سے آیا تھا) لکھ دیا اور اپنے رشتہ داروں کو مالی عطیے دیئے، اور اس معاملہ میں یہ تاویل کی کہ یہ وہ صلۂ رحمی ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ انہوں نے بیت المال سے روپیہ بھی لیا اور قرض رقمیں بھی لیں، اور کہا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ نے اس مال میں سے اپنا حق چھوڑ دیا تھا اور میں نے اسے لے کر اپنے اقرباء میں تقسیم کیا ہے۔ اسی چیز کو لوگوں نے ناپسند کیا‘‘۔
یہ امام زہری کا بیان ہے جن کا زمانہ سیدنا عثمانؓ کے عہد سے قریب ترین تھا، اور محمد بن سعد کا زمانہ امام زہری کے زمانے سے بہت قریب ہے۔ ابن سعد نے صرف دو واسطوں سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ اگر یہ بات ابن سعد نے امام زہری کی طرف، یا امام زہری نے حضرت عثمانؓ کی طرف غلط منسوب کی ہوتی تو محدثین اس پر ضرور اعتراض کرتے۔ اس لیے اس بیان کو صحیح تسلیم کرنا ہوگا اس کی تائید ابن جریر طبری کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ افریقہ میں عبداللہ ؓبن سعد بن ابی سرح نے وہاں کے طریق سے ۳ سو قنطار سونے پر مصالحت کی تھی فامربھا عثمان لآل الحکم (الطبری،ج۳،ص۳۱۴)(پھر حضرت عثمانؓ نے یہ رقم الحکم، یعنی مروان بن حکم کے باپ کے خاندان کو عطا کردینے کا حکم دیا)۔ حضرت عثمانؓ نے خود بھی ایک موقع پر ایک مجلس میں، جہاں حضرت علیؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت معاویہؓ موجود تھے، اور ان کے مالی عطایا پر اعتراضات زیر بحث تھے، اپنے طرز عمل کی یہ تشریح فرمائی تھی:
’’میرے دونوں پیش رو اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں کے معاملے میں سختی برتتے رہے، مگر رسول اللہﷺ تو اپنے رشتہ داروں کو مال دیا کرتے تھے میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جس کے لوگ قلیل المعاش ہیں۔ اس وجہ سے میں نے اس خدمت کے بدلے میں جو میں اس حکومت کی کر رہا ہوں، اس مال میں سے روپیہ لیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسا کرنے کا حق ہے۔ اگر آپ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں تو اس روپے کو واپس کرنے کا فیصلہ کر دیجیے، میں آپ کی بات مان لوں گا۔ سب لوگوں نے کہا آپ نے یہ بات بہت ٹھیک فرمائی۔ پھر حاضرین نے کہا آپ نے عبداللہ بن خالد بن اسیداور مروان کو روپیہ دیا ہے۔ ان کا بیان تھا کہ یہ رقم مروان کو ۱۵ ہزارکی اور ابن اسید کو ۵۰ ہزار کی مقدار میں دی گئی ہے۔ چنانچہ یہ رقم ان دونوں سے بیت المال کو واپس دلوائی گئی اور لوگ راضی ہو کر مجلس سے اٹھے‘‘۔
ان روایات سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے اقرباء کو روپیہ دینے میں جو طرز عمل اختیار کیا تھا وہ ہر گز شرعی جواز کی حد سے تجاوز نہ تھا۔ انہوں نے جو کچھ لیا وہ یا تو صدرِ مملکت کی حیثیت سے اپنے حق الخدمت کے طور پر لے کر خود استعمال کرنے کے بجائے اپنے عزیزوں کو دیا، یا بیت المات سے قرض لے کر دیا جسے وہ ادا کرنے کے ذمہ دار تھے، یا اپنی صوابدید کے مطابق انہوں نے خمس کے مال کو تقسیم کیا جس کے لیے کوئی مفصل شرعی ضابطہ موجود نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح وہ اپنے رشتہ داروں کے سوا دوسرے لوگوں کے ساتھ اس نوعیت کی فیاضی برتتے تو کسی کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ مگر خلیفہ وقت کا خود اپنے رشتہ داروں کے معاملہ میں یہ فیاضی برتنا موضع تہمت بن گیا۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے اسی بنا پر اپنے آپ کو ہر شک و شبہ سے بالاتر رکھنے کی خاطر اپنی ذات پر بھی سختی کی تھی اور اپنے عزیزوں کو بھی ان فیاضیوں سے محروم رکھا تھا جو وہ دوسرے سب لوگوں کے ساتھ برتتے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے یہ احتیاط ملحوظ نہ رکھی اور وہ اعتراضات کے ہدف بن گئے۔
شورش کے اسباب
حضرت عثمانؓ کے خلاف جو شورش برپا ہوئی اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کسی سبب کے بغیر محض سبائیوں کی سازش کی وجہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی، یا وہ محض اہل عراق کی شورش پسندی کا نتیجہ تھا، تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں ہے۔ اگر لوگوں میں ناراضی پیدا ہونے کے واقعی اسباب موجود نہ ہوتے اور ناراضی فی الواقع موجود نہ ہوتی تو کوئی سازشی گروہ شورش برپا کرنے اور صحابیوں اور صحابی زادوں تک کو اس کے اندر شامل کرلینے میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔ ان لوگوں کو اپنی شرارت میں کامیابی صرف اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ اپنے اقرباء کے معاملہ میں حضرت عثمانؓ نے جو طرز عمل اختیار فرمایا تھا اس پر عام لوگوں ہی میں نہیں بلکہ اکابر صحابہ تک میں ناراضی پائی جاتی تھی۔ اسی سے ان لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور جو کمزور عناصر انہیں مل گئے ان کو اپنی سازش کا شکار بنالیا۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ فتنہ اٹھانے والوں کو اسی رخنے سے اپنی شرارت کے لیے راستہ ملا تھا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ :
وکان الناس ینقمون علیٰ عثمان تقریبہ مروان وطاعتہ لہ ویرون ان کثیراً مما ینسب الیٰ عثمان لم یا مربہ وان ذالک عن رأی مروان دون عثمان فکان الناس قد شنفوا لعثمان لما کان یصنع بمروان ویقربہ۔ (طبقات ابن سعد، ج ۵، ص۳۶)
’’لوگ حضرت عثمانؓ سے اس لیے ناراض تھے کہ انہوں نے مروان کو مقرب بنا رکھا تھا اور وہ اس کا کہا مانتے تھے۔ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ بہت سے کام جو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کا حضرت عثمانؓ نے خود کبھی حکم نہیں دیا بلکہ مروان ان سے پوچھے بغیر اپنے طور پر وہ کام کر ڈالتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ مروان کو مقرب بنانے اور اس کو یہ مرتبہ دینے پر معترض تھے‘‘۔
ابن کثیر کا بیان ہے کہ کوفہ سے جو وفد عثمانؓ کے پاس شکایات پیش کرنے کے لیے آیا تھا اس نے سب سے زیادہ شدّت کے ساتھ جس چیز پر اعتراض کیا وہ یہ تھی:
بعثوا الیٰ عثمان من یناظرہ فیما فعل و فیما اعتمد من عزل کثیر من الصحابۃ و تولیہ جماعۃ من بنی امیّہ من اقربائہٖ واغلظوا لہ فی القول وطلبوا منہ ان یمزل عمالہ و یستبدل ائمۃ غیرھم۔ (البدایہ والنہایہ، ج ۷، ص ۱۶۷)
’’اہل کوفہ نے کچھ لوگوں کو حضرت عثمانؓ سے اس امر پر بحث کرنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے بہت سے صحابہ کو معزول کرکے ان کی جگہ بنی امیّہ میں سے اپنے رشتہ داروں کو گورنر مقرر کیا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ سے بڑی سخت کلامی کی اور مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو معزول کرکے دوسروں کو مقرر کریں‘‘۔
آگے چل کر حافظ ابن کثیر پھر لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار جو ان کے مخالفین کے پاس تھا وہ یہی تھا کہ:
ما ینقمون علیہ من تولیتہٖ اقرباء ہ وذوی رحمہٖ وعزلہٖ کبار الصحابۃ فد خل ھٰذا فی قلوب کثیر من الناس۔ (البدایہ، ج ۷، ص ۱۶۸)
’’حضرت عثمانؓ نے اکابر صحابہؓ کو معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو جو گورنر بنایا تھا اس پر وہ اظہارِ ناراضی کرتے تھے اور یہ بات بکثرت لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی تھی‘‘۔
طبریؒ، ابن اثیرؒ، اور ابن کثیرؒ نے وہ مفصل گفتگوئیں نقل کی ہیں جو اس فتنے کے زمانے میں حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کے درمیان ہوتی تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ مدینے میں جب حضرت عثمانؓ پر ہر طرف نکتہ چینیاں ہونے لگیں، اور حالت یہ ہوگئی کہ چند صحابہ (زید بن ثابتؓ، ابو اسید الساعدیؓ، کعب بن مالکؓ اور حسان بن ثابتؓ) کے سوا شہر میں کوئی صحابی ایسا نہ رہا جو حضرت والا کی حمایت میں زبان کھولتا، تو لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ حضرت عثمانؓ سے مل کر ان معاملات پر بات کریں۔ چنانچہ وہ ان کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ان کو وہ پالیسی بدل دینے کا مشورہ دیا جس پر اعتراضات ہو رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو میں نے عہدے دیئے ہیں انہیں عمر بن الخطاب نے بھی تو عہدوں پر مامور کیا تھا، پھر میرے ہی اوپر لوگ کیوں معترض ہیں؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا ’’عمرؓ جس کو کسی جگہ کا حاکم مقرر کرتے تھے، اس کے متعلق اگر انہیں کوئی قابل اعتراض بات پہنچ جاتی تھی تو وہ بری طرح اس کی خبر لے ڈالتے تھے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے۔ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نرمی برتتے ہیں‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا ’’وہ آپ کے بھی تو رشتہ دار ہیں‘‘۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا ان رحمھم منّی لقربیۃ ولکن الفضل فی غیرھم۔ ’’بے شک میرا بھی ان سے قریبی رشتہ ہے، مگر دوسرے لوگ ان سے افضل ہیں‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے کہا ’’کیا عمرؓ نے معاویہؓ کو گورنر نہیں بنایا تھا؟‘‘ حضرت علیؓ نے جواب دیا ’’عمرؓ کا غلام یَزفأ بھی ان سے اتنا نہ ڈرتا تھا جتنے معاویہؓ ان سے ڈرتے تھے، اور اب یہ حال ہے کہ معاویہ ؓآپ سے پوچھے بغیر جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عثمانؓ کا حکم ہے مگر آپ انہیں کچھ نہیں کہتے‘‘۔ (الطبری، ج۳، ص۳۷۷۔ ابن الاثیر، ج۳، ص۷۶، البدایہ ج۷، ص۱۶۸-۱۶۹)
ایک اور موقع پر حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی قرابت کا واسطہ دے کر ان سے کہا کہ آپ اس فتنے کو فرو کرنے میں میری مدد کریں۔ انہوں نے جواب دیا ’’یہ سب کچھ مروان بن الحکم، سعید بن العاصؓ، عبداللہ بن عامرؓ اور معاویہؓ کی بدولت ہو رہا ہے۔ آپ ان لوگوں کی بات مانتے ہیں اور میری نہیں مانتے‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا ’’اچھا اب میں تمہاری بات مانوں گا‘‘۔ اس پر حضرت علیؓ انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کو ساتھ لے کر مصر سے آنے والے شورشیوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو واپس جانے کے لیے راضی کیا۔ اسی زمانہ فتنہ میں ایک اور موقع پر حضرت علیؓ سخت شکایت کرتے ہیں کہ میں معاملات کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور مروان ان کو پھر بگاڑ دیتا ہے۔ آپ خود منبر رسول ؐ پر کھڑے ہو کر لوگوں کو مطمئن کردیتے ہیں اور آپ کے جانے کے بعد آپ ہی کے دروازے پر کھڑا ہو کر مروان لوگوں کو گالیاں دیتا ہے اور آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ (الطبری، ج۳، ص۳۹۸۔ ابن الاثیر، ج۳، ص۸۴-۸۳)
حضرت طلحہؓ و زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے متعلق بھی ابن جریر نے روایات نقل کی ہیں کہ یہ حضرات بھی اس صورت حال سے ناراض تھے۔ (الطبری، ج۳، ص۴۷۷-۴۸۶) مگر ان میں سے کوئی بھی یہ ہر گز نہ چاہتا تھا کہ خلیفہ وقت کے خلاف کوئی شورش یا بغاوت ہو یا ان کے قتل تک نوبت پہنچ جائے۔ طبری نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ انما اردنا ان یستعتب امیر المؤمنین عثمان ولم نرد قتلہٗ فغلب سفھاء الناس الحلماء حتٰی قتلوہ۔ ’’ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ امیر المومنین عثمانؓ کو یہ پالیسی ترک کر دینے پر آمادہ کیا جائے۔ ہمارا یہ ہر گز خیال نہ تھا کہ وہ قتل کرڈالے جائیں۔ مگر بے وقوف لوگ بردبار لوگوں پر غالب آگئے اور انہوں نے ان کو قتل کردیا‘‘۔
حضرت علیؓ کی خلافت
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جن حالات میں حضرت علیؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ باہر سے آئے ہوئے دو ہزار شورشی دارالخلافہ پر مسلّط تھے۔ خلیفۂ وقت کو قتل تک کر گزرے تھے۔ خود دارالخلافہ میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہم خیال موجود تھی۔ نئے خلیفہ کے انتخاب میں وہ لوگ یقینا شریک ہوئے، اور ایسی روایات بھی بلاشبہ موجود ہیں کہ حضرت علیؓ کو خلیفہ منتخب کر لیا گیا تو ان لوگوں نے بعض حضرات کو زبردستی بھی بیعت پر مجبور کیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ انتخاب غلط تھا؟ کیا اس وقت حضرت علیؓ سے بہتر کوئی آدمی مدینہ ہی میں نہیں پوری دنیائے اسلام میں ایسا موجو تھا جسے خلیفہ منتخب ہونا چاہیے تھا؟ کیا اس وقت کے رائج اور مسلم اسلامی دستور کی رو سے حضرت علیؓ جائز طور پر خلیفہ منتخب نہ ہوگئے تھے؟ کیا اسلامی دستور میں ایسی کوئی چیز کہیں پائی جاتی ہے کہ نئے خلیفہ کے انتخاب میں اگر سابق خلیفہ کے خلاف شورش برپا کرنے والا گروہ بھی شریک ہوگیا ہو تو اس کا انتخاب غیر قانونی قرار پائے؟ کیا یہ درست تھا اور یہی ہونا چاہیے تھا کہ ایک خلیفہ شہید ہوچکا ہو اور دوسرا خلیفہ اس کی جگہ جلدی سے جلدی منتخب نہ کرلیا جائے بلکہ دنیائے اسلام ایک مدت تک بے خلیفہ ہی پڑی رہے؟ اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت علیؓ دانستہ ہی قاتلینِ عثمانؓ کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے میں کوتاہی کر رہے تھے یاان کے ہاتھ میں بے بس تھے تب بھی کیا اسلامی آئین و دستور کی رو سے یہ بات ان کی خلافت کو ناجائز، اور ان کے خلاف تلوار لے کر کھڑے ہوجانے کو جائز کردینے کے لیے کافی تھی؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو بعد کے واقعات کے بارے میں ایک صحیح رائے قائم کرنے کے لیے فیصلہ کنُ اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان سوالات کا جواب اثبات میں دینا چاہتا ہو تو وہ ضرور اپنی دلیل پیش کرے۔ لیکن پہلی صدی سے لے کر آج تک تمام اہل سنت بالاتفاق حضرت علیؓ کو چوتھا خلیفہ راشد تسلیم کرتے رہے ہیں اور ہمارے اپنے ملک میں ہر جمعہ کو اہل سنت بالالتزام ان کی خلافت کا اعلان کر رہے ہیں۔ کم و بیش یہی صورتِ حال خود حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی تھی کہ ایک شام کے صوبے کو چھوڑ کر جزیرۃ العرب اور اس کے باہر کے تمام اسلامی مقبوضات ان کی خلافت مان رہے تھے، مملکت کا نظام عملاً انہی کی خلافت پر قائم ہوچکا تھا اور امت کی عظیم اکثریت نے ان کی سربراہی تسلیم کرلی تھی۔ اب یہ دعویٰ کرنے کے لیے مکابرہ کی بہت بڑی مقدار درکار ہے کہ ان کی خلافت مشکوک و مشتبہ تھی اور ان کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کے لیے شرعی جواز کی کوئی گنجائش موجود تھی۔ خصوصاً ان لوگوں پر تو مجھے سخت حیرت ہے جنہیں ایک طرف یزید کی خلافت کو صحیح اور حضرت حسینؓ کو برسر غلط ٹھہرانے پر تو بڑا اصرار ہے، مگر دوسری طرف وہ حضرت معاویہؓ کے حق میں معذرتیں پیش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ حالانکہ جن دلائل سے یزید کی خلافت صحیح ثابت کی جاتی ہے ان کی بہ نسبت ہزار گنے زیادہ قوی دلائل سے حضرت علیؓ کی خلافت قطعی صحت کے ساتھ قائم ہوئی تھی، اور جن حضرات نے بھی خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے ان کے خلاف تلوار اٹھائی ان کے اس فعل کے حق میں کوئی شرعی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی۔ خدا کی شریعت بے لاگ ہے۔ اس میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ کسی کے مرتبے کا لحاظ کرکے ہم غلط کو صحیح بنانے کی کوشش کریں۔
قاتلینِ عثمانؓ کا معاملہ
میں نے شرعی احکام پر جتنا بھی غور کیا ہے اس کی بنا پر میرے نزدیک خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کی شرعاً ایک ہی صورت تھی۔ اور وہ یہ کہ خلیفہ وقت کی خلافت کو مان کر انہی سے یہ مطالبہ کیا جاتا کہ وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلین کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلائیں اور جس جس کا جو بھی حصہ اس جرم عظیم میں تھا اس کو شہادتوں کے ذریعہ سے متعین کرکے قانون کے مطابق اس کو سزا دیں۔ دوسری طرف اس وقت کے حالات کا میں نے جس قدر بھی مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ عملاً یہ قانونی طریق کار اس کے بغیر اختیار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حضرت علیؓ کے ساتھ سب لوگ تعاون کرتے اور ان کو پر امن حالات میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا۔ جیسا کہ تاریخی واقعات سے ثابت ہے، جو گروہ سازش کرکے مدینہ پر چڑھ آیا تھا اس کی تعداد دوہزار کے قریب تھی۔ خود مدینہ میں بھی ایک تعداد ان کے حامیوں کی موجود تھی۔ اور مصر، بصرہ اور کوفہ میں بھی ان کی پشت پر ایک ایک جتھا پایا جاتا تھا۔ اگر تمام اہل حق حضرات علیؓ کے گرد جمع ہوجاتے اور ان سے تعاون کرتے تو وہ ان جتھوں کو منتشر کرنے کے بعد ان پر ہاتھ ڈال سکتے تھے۔ لیکن جب ایک طرف با اثر صحابہ کے ایک گروہ نے غیر جانبداری کی روش اختیار کی، اور دوسری طرف بصرے اور شام میں طاقتور فوجیں حضرت علیؓ سے لڑنے کے لیے جمع ہوگئیں، تو ان کے لیے نہ صرف یہ کہ اس گروہ پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ رہا، بلکہ وہ عملاً مجبور ہوگئے کہ ان طاقتور فوجوں کے مقابلے میں جن لوگوں سے بھی مدد لے سکتے تھے ان سے مدد لیں اور ایک اور لڑائی قاتلینِ عثمانؓ کے جتھے سے نہ چھیڑدیں۔ میری اس رائے سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ مجھے بتائے کہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کے اس مضبوط جتھے کو کس وقت پکڑتے؟ کیا خلافت سنبھالتے ہی فوراً؟ یا جنگِ جمل کے زمانے میں؟ یا جنگِ صفین کے زمانے میں؟ یا جنگِ صفین کے بعد اس زمانے میں جبکہ ایک طرف حضرت معاویہؓ ان کے مقابلے میں مملکت کے ایک ایک صوبے کو توڑ لینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف خوارج ان کے خلاف صف آرا تھے؟
اجتہادی غلطی کیا ہے اور کیا نہیں ہے
اوپر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جن حضرات نے بھی قاتلینِ عثمانؓ سے بدلہ لینے کے لیے خلیفہ وقت کے خلاف تلوار اٹھائی ان کا یہ فعل شرعی حیثیت سے بھی درست نہ تھا، اور تدبیر کے اعتبار سے بھی غلط تھا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں ہے کہ انہوں نے یہ غلطی نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے کی تھی، مگر میں اسے محض ’’غلطی‘‘ سمجھتا ہوں۔ اس کو ’’اجتہادی غلطی‘‘ ماننے میں مجھے سخت تامل ہے۔ اجتہاد کی اصلاح کا اطلاق میرے نزدیک صرف اس رائے پر ہوسکتا ہے کہ جس کے لیے شریعت میں کوئی گنجائش پائی جاتی ہو، اور ’’اجتہادی غلطی‘‘ ہم صرف اس رائے کو کہہ سکتے ہیں جس کے حق میں کوئی نہ کوئی شرعی استدلال توہو مگر وہ صحیح نہ ہو یا بے حد کمزور ہو۔ اب کوئی صاحبِ علم براہ کرم یہ بتادیں کہ حضرت علیؓ کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے جواز کی کوئی کمزور سے کمزور گنجائش بھی شریعت میں اگر تھی تو وہ آخر کیا تھی؟ جہاں تک جنگِ جمل کا تعلق ہے، معتبر روایات کی رو سے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ، دونوں عین جنگ سے پہلے اپنی غلطی مان کر میدان سے ہٹ گئے تھے، اور حضرت عائشہؓ نے بعد میں اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ رہے حضرت معاویہؓ تو وہ بلاشبہ اپنے آپ کو ہمیشہ حق بجانب سمجھتے رہے۔ مگر ان کی لڑائی کے لیے جواز کی معقول گنجائش آخرکیا قرار دی جاسکتی ہے؟ کیا یہ کہ نئے خلیفہ نے ایک گورنر کو اس کے عہدے سے معزول کردیا؟ یا یہ کہ نئے خلیفہ نے سابق خلیفہ کے قاتلوں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ نہ چلایا؟ یا یہ کہ نئے خلیفہ پر سابق خلیفہ کے قاتلوں نے غلبہ پالیا؟ یا یہ کہ نئے خلیفہ کی خلافت ہی ایک صوبے کے گورنر کی رائے میں قانونی طور پر قائم نہیں ہوئی در آنحالیکہ مرکز اور تمام دوسرے صوبوں میں اس کی خلافت مانی بھی جاچکی تھی اور عملاً بھی قائم ہوچکی تھی؟ ان میں سے کسی ایک کو بھی خلیفہ وقت کے خلاف تلوار اٹھانے کی جائز وجہ قرار دینے کے لیے شریعت میں اگر کوئی دور دراز کی گنجائش بھی پائی جاتی ہو تو اسے بیان کردیا جائے۔ اس معاملہ میں آیت وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًاسے استدلال قطعاً غلط ہے۔ اس لیے کہ اس آیت کا یہ منشا ہر گز نہیں ہے کہ اگر خلیفہ وقت قاتلوں کو گرفتار نہ کرے تو مقتول کے اولیاء کو خلیفہ سے جنگ کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔
یہی مشکل حضرت عمرو بن العاصؓ کے معاملہ میں بھی پیش آتی ہے۔ جنگِ صفّین میں نیزوں پر قرآن اٹھانے کی تجویز، اور پھر دَومَۃُ الجَنْدل میں تحکیم کی کاروائی تمام معتبر روایات میں جس طرح بیان ہوئی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ یہ محض ’’غلطی‘‘ تھی۔ اس کو ’’اجتہادی غلطی‘‘ قرار دینے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ابنِ سعد نے امام زہری کی روایت نقل کی ہے کہ جنگِ صفّین میں جب لڑائی انتہائی شدّت اختیار کر گئی اور لوگوں کی ہمت جواب دینے لگی تو حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت معاویہؓ سے کہا: ھل انت مطیعی فتامر رجالاً ینشر المصاحف ثم یقولون یا اھل العراق ندعو کم الی القرآن، والی ما فی فاتحتہٖ الیٰ خاتمتہٖ، فانک ان تفعل ذالک یختلف اھل العراق ولا یزید ذالک امر اھل الشام الّا استجماعاً، فاطاعہ۔ ’’آپ میری بات مانیں تو لوگوں کو حکم دیجیے کہ قرآن کھول کر کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ اے اہل عراق، ہم تمہیں قرآن کی طرف بلاتے ہیں، الحمد سے والناس تک اس میں جو کچھ ہے اس کے مطابق فیصلہ ہوجائے۔ یہ کام آپ کریں گے تو اہل عراق میں پھوٹ پڑ جائے گی اور اہل شام کی جمعیت بندھی رہے گی۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ نے اس کی تجویز مان لی‘‘۔ یہی بات زیادہ تفصیل کے ساتھ ابن جریر، ابن کثیر، اور ابن اثیر نے بھی نقل کی ہے۔ ان سب کا متفقہ بیان یہ ہے کہ حضرت عمرو نے قرآن کو حکم بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے اس کی مصلحت یہ بیان فرمائی تھی کہ ’’یا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں پھوٹ پڑ جائے گی، یا اگر وہ سب اسے مان بھی گئے تو ہمیں کچھ مدت کے لیے جنگ کو ٹالنے کا موقع مل جائے گا۔ اس کے سوا قرآن اٹھانے کی کوئی اور غرض جہاں تک مجھے معلوم ہے، کسی مؤرخ نے بیان نہیں کی ہے۔ اور اس متفقہ بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس تجویز کا مقصد فی الواقع قرآن کی بنیاد پر فیصلہ کرانا نہ تھا، بلکہ اسے صرف ایک جنگی چال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ کیا اسے واقعی ’’اجتہاد‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے؟ پھر دَومَۃُ الجَنْدل میں تحکیم کے موقع پر جو کچھ پیش آیا اس کے متعلق طبقات ابنِ سعد، تاریخ طبری، البدایہ و النہایہ اور ابن اثیر کی متفق علیہ روایت یہ ہے کہ حضرت عمرؓوبن العاص اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے درمیان خلوت میں جو بات طے ہوئی تھی، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے مجمع عام میں آکر اسی کا اعلان کیا، اور حضرت عَمْرو نے اپنا فیصلہ اس کے بالکل خلاف پیش کردیا۔ (طبقات ابنِ سعد، ج۴، ص۲۵۶-۲۵۷۔ الطبری ج۴، ص۴۹ تا ۵۲۔ البدایہ والنہایہ ج۷، ص ۲۸۱) اس رودار کو پڑھ کر آخر کون انصاف پسند آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ’’اجتہاد‘‘ تھا؟
یزید کی ولی عہدی کا معاملہ
سب سے حیرت مجھے اس استدلال پر ہے جس سے یزید کی ولی عہدی کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معترض حضرات یہ تو مانتے ہیں کہ اس کا روائی سے برے نتائج برآمد ہوئے، مگر وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ اگر یزید کو جانشین نامزد کرکے اپنی زندگی ہی میں اس کے لیے بیعت نہ لے لیتے تو ان کے بعد مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوتی اور قیصر روم چڑھ آتا اور اسلامی ریاست ہی کا خاتمہ ہوجاتا، اس لیے ان بد ترین نتائج کی بہ نسبت وہ نتائج کمتر ہی برے ہیں جو یزید کو ولی عہد بنانے سے رونما ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر فی الواقع حضرت معاویہؓ کا یہ خیال تھا کہ ان کے بعد کہیں جانشینی کے لیے امت میں خانہ جنگی برپا نہ ہو، اور اس بنا پر وہ یہ ضرورت محسوس فرماتے تھے کہ اپنی زندگی ہی میں اس کا فیصلہ کرکے اپنے ولی عہد کے لیے بیعت لے لیں، تو کیا وہ اس نہایت مبارک خیال کو عمل میں لانے کی یہ صورت اختیار نہ فرما سکتے تھے کہ بقایائے صحابہ اور اکابر تابعین کوجمع کرتے، اور ان سے کہتے کہ میری جانشینی کے لیے ایک موزوں آدمی کو میری زندگی ہی میں منتخب کرلو، اور جس کو وہ لوگ منتخب کرتے اس کے حق میں سب سے بیعت لے لیتے؟ اس طریق کار میں آخر کیا امر مانع تھا؟ اگر حضرت معاویہؓ یہ راہ اختیار کرتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خانہ جنگی پھر بھی برپا ہوتی اور قیصرِ روم پھر بھی چڑھ آتا اور اسلامی ریاست کا خاتمہ کر ڈالتا؟
حضرت علیؓ کی بے جا وکالت کا الزام
معترض حضرات نے مجھے پر اس شبہ کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ میں حضرت علیؓ کی بے جا وکالت کر رہا ہوں۔ مگر میں صحابہ کرام، اور خصوصاً خلفائے راشدین کے معاملہ میں اپنا مستقل مسلک پہلے ہی یہ بیان کرچکا ہوں کہ ان کا کوئی قول یا فعل اگر بظاہر غلط محسوس ہوتا ہو تو ان کے اپنے کسی بیان، یا اس وقت کے ماحول یا ان کے مجموعی طرزِ عمل میں اس کا صحیح محمل تلاش کرنے کی پوری کوشش کی جائے، اور اس کے حق میں ہر وہ معقول تاویل کی جائے جو بے جا اور بھونڈی وکالت کی حد تک نہ پہنچتی ہو۔ سیدنا علیؓ کے معاملہ میں رسائل و مسائل حصہ اول کے مضمون ’’حضرت علیؓ کی امیدواری خلافت‘‘ اور موجودہ زیرِ بحث مضمون میں جو رویہ میں نے اختیار کیا ہے وہ دراصل اسی قاعدے پر مبنی ہے، کوئی بے جا وکالت نہیں ہے جس کا مجھے طعنہ دیا جا رہا ہے۔ میں جب دیکھتا ہوں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے شیخینؓ اور حضرت عثمانؓ کے پورے دور خلافت میں جس خلوص اور کامل جذبہ رفاقت کے ساتھ انہوں نے ان تینوں حضرات کے ساتھ تعاون کیا، اور جیسے محبت کے تعلقات ان کے درمیان رہے، اور حضرت ابوبکرؓو عمرؓ کی رفاقت کے بعد جس طرح دل کھول کر وہ ان کی تعریفیں کرتے رہے، تو مجھے وہ روایات کمزور محسوس ہوتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان میں سے ہرایک کے خلیفہ بنائے جانے پر ناراض تھے، اور وہ روایات زیادہ قوی معلوم ہوتی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے ہر ایک کی خلافت آغاز ہی میں دل سے قبول فرمائی تھی۔ جب دونوں طرح کی روایات موجود ہیں اور سند کے ساتھ بیان ہوئی ہیں، تو آخر ہم ان روایات کو کیوں نہ ترجیح دیں جو ان کے مجموعی طرزِ عمل سے مناسبت رکھتی ہیں، اور خواہ مخواہ وہی روایات کیوں قبول کریں جو اس کی ضدِ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ کی شہادت سے لے کر خود ان کی اپنی شہادت تک ایک ایک مرحلے پر ان کا جو رویہ رہا ہے اس کے ہر جز کا ایک صحیح محل میں نے تلاش کیا اور ان کے اپنے بیانات میں، یا اس وقت کے حالات و واقعات میں وہ مجھے مل گیا، مگر صرف ایک مالک الَاشْتر اور محمد بن ابی بکر کو گورنری کا عہدہ دینے کا فعل ایسا تھا جس کی کسی تاویل سے بھی حق بجانب قرار دینے کی گنجائش مجھے نہ مل سکی۔ اسی بنا پر میں نے اس کی مدافعت سے اپنی معذوری ظاہر کردی ہے۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۶۵ء)