غذاؤں کی حُرمت و حِلّت
سوال: میں ایک عرصے سے انگلستان میں مقیم ہوں۔ یہاں اہل فرنگ سے جب کبھی مذہب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے یہ لوگ اکثر سور کے گوشت کی بابت ضرور گفتگو کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اسلام میں اسے کیوں حرام کیا گیا ہے؟ میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں اور واضح کریں کہ قرآن کی رو سے اس گوشت کی ممانعت کس بنا پر کی گئی ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب: سور کے گوشت کو جس طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے اسی طرح بائیبل (عہد نامہ قدیم) میں بھی منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہودی آج بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ عہد نامہ جدید میں بھی خود حضرت عیسیٰ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ بائیبل کا یہ قانون منسوخ کردیا گیا ہے۔ وہ سینٹ پال تھا جس نے عیسائیت کو مغربی اقوام میں پھیلانے کے لیے شریعت کی قیود توڑ ڈالیں اور جو کچھ خدا نے حرام کیا تھا اسے حلال کردیا۔ خدا کی شریعت میں تو سور ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔
جن چیزوں کی مضرت انسان اپنے تجربات سے خود جان لیتا ہے ان کے متعلق خدا کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا علم حاصل کرنے کے لیے انسان کے اپنے ذرائع علم کافی ہیں۔ اسی لیے خدا کا شریعت میں سنکھیا کی حرمت نہیں بیان کی گئی۔ مگر جن چیزوں کی مضرت جاننے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان سے پرہیز کرو۔ ہمارے لیے عقل مندی یہی ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ کرکے ان سے پرہیز کریں تاکہ ان کے نقصان سے بچے رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غذاؤں کا اثر صرف انسان کے جسم ہی پر نہیں پڑتا بلکہ اس کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے۔ جسم پر پڑنے والے اثرات کو تو ہم اپنے تجرباتی علوم سے معلوم کرلیتے ہیں اور بہت کچھ کرچکے ہیں، مگر اخلاق پر غذاؤں کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کا علم اس وقت تک بھی انسان کو حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ خدا کی شریعت میں سور، مردار، خون اور درندوں کی حرمت اسی لیے بیان کی گئی ہے کہ انسانی اخلاق پر ان غذاؤں کا برا اثر پڑتا ہے۔
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۶۵ء)