رسول کی بشری کمزوریوں سے مراد طبعی ضروریات ہیں
سوال: ایک عالم دین کو اصرار ہے کہ لندن کی اسلامی کانفرنس والے مقالے میں آپ نے رسول اللہﷺ کے بارے میں ’’بشری کمزوری سے بالاتر نہ ہونے‘‘ کے الفاظ جو استعمال کیے ہیں وہ در حقیقت عیب اور نقص کے معنی میں ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ ان الفاظ سے خود آپ کی مراد کیا تھی؟‘‘
جواب: اگر چہ ماہِ جون کے ترجمان القرآن میں ، میں اپنی مراد وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں، مگر اس کے بعد بھی اس الزام پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قائل جب اپنے قول کی صاف صاف وضاحت کردے تب بھی الزام لگانے والا یہی کہتا رہے گا کہ تیرے قول کا اصل منشا وہ نہیں ہے جو تو بیان کرتا ہے، بلکہ وہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں۔ یہ عجیب رویہ ہے جو متقی اور خدا ترس لوگوں نے کبھی اختیار نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر میری طرف سے کوئی وضاحت نہ بھی ہوتی اور صرف اس مضمون کی متعلقہ عبارات ہی کو صاف ذہن کے ساتھ پڑھا جاتا تو اس غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی کہ اس سلسلئہ کلام میں بشری کمزوریوں سے مراد عیوب اور نقائص ہوسکتے ہیں۔ اس میں تو ساری بحث یہ ہے کہ دوسری قوموں نے اپنے انبیاء کے حق میں جو مبالغے کیے ہیں اور ان کو خدا، یا خدا کی اولاد، یا خدا کا اوتار تک بنا ڈالا ہے، قرآن مجید نے ان سب سے مسلمانوں کو بچالیا اور خدائی و رسالت کے درمیان ایک ایسا خطِ امتیاز کھینچ دیا جس سے ہر انسان یہ جان سکتا ہے کہ رسول کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ آخر اس بحث کے دوران میں یہ کہنے کا کیا موقع ہوسکتا ہے کہ رسول عیوب اور نقائص سے بالاتر نہیں ہوتا۔
علاوہ بریں اگر کوئی شخص الفاظ کے معانی کی سمجھ رکھتا ہو تو وہ بشری کمزوریوں کا مطلب عیوب اور نقائص ہر گز نہیں لے سکتا۔ انسان کے لیے ’’عیب‘‘ کا لفظ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب وہ مثلاً بد زبان ہو، جھوٹا ہو، چغلخور ہو، فریبی اور خائن اور بد کردار ہو۔ ’’نقص‘‘ کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب وہ یا تو کسی جسمانی نقص میں مبتلا ہو مثلاً بد شکل یا ناقص الاعضاء ہونا، یا وہ کسی ذہنی یا اخلاقی نقص میں مبتلا ہونا، مثلاً کنُد ذہن، کم فہم یا خواہشاتِ نفس سے مغلوب ہونا۔ ان دونوں کے برعکس بشری کمزوریوں یہ ہیں کہ انسان اپنی سلامتی کے لیے غذا اور پانی کا محتاج ہو۔ آرام اور نیند کا محتاج ہے۔ نکاح کا محتاج ہے۔ بیماری میں علاج کا محتاج ہے۔ دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے سائے کا محتاج ہے۔ سردی سے بچنے کے لیے گرم لباس کا محتاج ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء، آیت: ۲۸)۔ ’’اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔
(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۷۶ء)