قوم ثمود کے مَساکِن
سوال: ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز‘‘ (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ رائے درج کی ہے:
’’قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انہوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بنائے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں‘‘ (ص ۳، کتاب مذکور)
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں خاکسار کے شرح صدر کے لیے اپنی تحقیق سے آگاہی بخشیں گے۔
جواب: نکلسن بےچارے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نبوت سے پہلے بھی بار ہا اس راستے سے گزرے تھے جہاں ثمودی عمارات واقع ہیں اور نبوت کے بعد بھی عزوۂ تبوک کے موقع پر آپ کا اور آپ کے لشکر کا گزر وہاں سے ہوا تھا۔ اس زمانے کے اہل عرب خوب جانتے تھے کہ قوم ثمود کا علاقہ یہی ہے اور ثمود کے لوگوں ہی نے پہاڑوں کو کھود کر ان میں یہ عمارتیں بنائی تھیں۔ اسی وجہ سے قرآن کے اس بیان کو اس زمانے کے اہل عرب نے کبھی چیلنج نہیں کیا۔
میں نے خود حجر کے علاقے میں ثمودی عمارات بھی دیکھی ہیں اور نبطی علاقے میں بھی گیا ہوں اور ان کی قدیم عمارات کو دیکھا ہے۔ دونوں کے طرز تعمیر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ صرف یہ بات کہ ثمودی عمارات پر آج نبطی کتبات پائے جاتے ہیں اس امر کا ثبوت نہیں ہوسکتی کہ یہ دراصل نبطی عمارات ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں جب یہ علاقہ نبطیوں کے قبضے میں آیا ہو تو انہوں نے اپنے کتبات ان پر ثبت کردیے ہوں۔
سوال: آپ کی عنایت پر بہت شکریہ ادا کرتا ہوں آپ کے اشارات سے مجھے غور وفکر کے لیے کافی مواد مل گیا تاہم محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ مرتبہ مجھ سے عرض مطلب میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ یہ عمارات ثمودی ہیں یا نبطی۔ نہ نکلسن نے اس امر کی نفی کی ہے کہ حضورﷺ نے ان عمارات کا مشاہدہ فرمایا تھا اور اہل عرب ان کے ثمودی ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ خود نکلسن بھی ان کے ثمودی ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اصل بات یہ تھی کہ قرآن پاک میں انہیں ’’بیوت‘‘ کہا گیا گیا ہے۔ اگرچہ علی سبیل العموم ان سے کوٹھڑیاں(جو کسی بھی مقصد کے لیے ہوں) مراد لی جاسکتی ہیں تاہم قریب ترین تاثر یہی پیدا ہوتا ہے کہ مراد ’’گھر‘‘ ہیں۔ نکلسن یہ کہتا ہے کہ یہ ’’گھر‘‘ نہیں ہیں ’’مقبرے‘‘ ہیں۔ اس دوران خاکسار نے ورق گردانی سے یہ معلوم کیا ہے کہ نکلسن ڈاؤٹی(Doughty) کے حوالے سے یہ بات کہتا ہے جو ایک انگریز سیاح تھا جس نے۱۸۷۵ء میں کاروان حج کے ساتھ سفر کرتے ہوئے حجر کے مقام پر توقف کیا، ان عمارات کی ڈرائنگ کی اور ان پر کھدی ہوئی عبارتوں کو نقل کرکے یہ مواد فرانس کے مشہور عالم السنہ سامیہ جوزف ریناں کو بھیج دیا۔ بعد ازاں کیا ہوا، یہ میں نہیں معلوم کرسکا۔ بہرحال اسی شخص کے حوالے سے نکلسن نے یہ کہا ہے کہ ان کتبات سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ یہ عمارات جن کو قرآن ’’بُیوت‘‘ کے لفظ سے یاد کرتا ہے، فی الحقیقت مدفن ہیں۔
بلاشبہ کلام اللہ میں جو کچھ آیا ہے درست ہے اور اس کے برخلاف جس کسی نے بھی کچھ نتیجہ نکالا ہے وہ ضرور کسی نہ کسی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ تاہم جب خالص علمی سطح پر تاریخی آثار کو گواہ بناتے ہوئے کوئی شخص کسی خاص مسئلے کی نشاندہی کرے تو اسی سطح پر اس کی تحقیق و تردید ضروری ہوجاتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ نکلسن کی یہ کتاب ایک طویل عرصے سے ہمارے ہاں متداول ہے اور ہر سال مسلمانوں کا ایک جم غفیر بچشم خود ان کتبات کو دیکھنے اور نقل کرنے پر قادر ہے لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کیا کہ علمی سطح پر اس الجھاؤ کا جواب دے دیتا۔
آپ نے تفہیم القرآن میں ثمود اور ان کی عمارات پر جو اشارات درج فرمائے ہیں ان میں سے بعض (بعض اس لیے کہ میں نے تمام جلدیں نہیں دیکھیں)۔ انہی دنوں میری نظر سے گزرے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے علاوہ بھی آپ اس مسئلے پر ضرور روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک تصاویری مہم بھی سر کی تھی۔ ان تصویروں کی ایک خاصی تعداد بھی میں نے دیکھی تھی۔ ان میں عمارات کی تصویر بھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان پر کھدی ہوئی عبارتوں کی کوئی الگ تصویر بھی ہمیں مہیا ہوسکتی ہے یا نہیں۔ یہ کتبات تعداد میں کتنے ہیں؟ کس زبان میں ہیں؟ کس رسم الخط میں ہیں؟ کیا ہم کسی طرح ان کو پڑھ سکتے ہیں؟ کیا واقعی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ’’مقابر‘‘ ہیں؟ اگر ہوتی ہے تو قرآن سے اس کی تطبیق کی کیا صورت ہے؟ کیا قرآن سے یہ ثابت نہیں کہ یہ ’’رہائش کے مکان‘‘ تھے؟ تو پھر کسی لکھنے والے نے کیوں ان پر وہ عبارات کندہ کیں جن سے یہ مقبرے ثابت ہوں؟
آپ نے جو قیاس ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے نبطیوں نے بعد کو یہ عبارتیں کندہ کی ہوں، نہایت فکر انگیز ہے، لیکن اس ضمن میں بھی تحقیقی سراغ رسانی ضروری ہے، میں چاہتا ہوں کہ قرآنی صداقت کا کوئی ناقابل تردید ثبوت مل جائے اور مستشرقین کی غلط فہمی کو خالص علمی سطح پر حرف غلط ثابت کیا جاسکے۔
جواب: میں نے ارض القرآن کے دورے سے پہلے ڈاؤنی کا سفر نامہ پورا پڑھا تھا اور اس نے جو کچھ غلط فہمیاں قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق ثمودی عمارات کے سلسلے میں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں نے الحجر اور مدائن صالح میں ثمودی عمارتوں کو دیکھا اور پھر نبطی علاقے میں جا کر تعمیر کردہ عمارات کو بھی دیکھا۔ دونوں قسم کی عمارتوں کے فوٹو میں نے لے لیے اور تفہیم القرآن جلد سوم میں ان کو شائع کردیا تاکہ ہر شخص خود دیکھ سکے کہ نبطی عمارات اور ثمودی عمارات کے طرز تعمیر میں کیا فرق ہے۔ قوم ثمود اور انباط دونوں نے اپنے اپنے زمانے میں پہاڑوں کو کھود کر مکانات بنائے تھے۔ نبطی ثمود سے صد ہا برس بعد ظہور میں آئے تھے۔ اس وجہ سے ان کے زمانے میں ثمود کی بہ نسبت پہاڑ کھود کر مکان بنانے کا فن بہت زیادہ ترقی کرگیا تھا۔ ثمودی علاقے میں جو مکانات موجود ہیں ان میں بعض ایسے ہیں جن کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی ہال کے طور پر استعمال ہوتے ہونگے۔ اور بعض دو تین کمروں پر مشتمل ہیں جو غالباً رہنے کے لیے استعمال ہوتے ہونگے۔ بعض میں صرف ایک چھوٹی یا بڑی کوٹھڑی ہے۔ وہاں کوئی آثار میں نے ایسے نہیں دیکھے جن سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ ابتداء ً مقبرے بنائے گئے ہونگے۔ سینکڑوں برس بعد جب نبطی اس علاقے پر قابض ہوئے تو ممکن ہے کہ انہوں نے ان کو مقبروں کے طور پر استعمال کیا ہو لیکن اب کوئی قبر کی نوعیت کی چیز وہاں نہیں پائی جاتی۔
کتبات کی زبان اور رسم الخط کے متعلق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم سامی لغات کی زبانیں اور رسم الخط ایک دوسرے سے ماخوذ اور متشابہ چلے آرہے تھے۔ ثمودی، لحیانی اور نبطی زبان اور طرز تحریر میں تھوڑا تھوڑا فرق تاریخ کے دوران میں مسلسل ہوتا رہا ہے اور یہ فیصلہ کرنا عرب کے علم الآثار پر تحقیق کرنے والوں کے لیے خاصا مشکل ہوگیا ہے کہ کس خط کو خالص ثمودی اور کس کو خالص لحیانی اور کسی کو خالص نبطی قرار دیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ ثمودی عمارات پر بعد میں نبطیوں نے اپنے کتبات لکھ دیے ہوں یا ان سے پہلے لحیانیوں نے انہیں لکھا ہو، یا ابتداء ً خود ثمودیوں نے کچھ کتبات لکھے ہوں۔ قطعی طور پر تحقیق کے ساتھ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کن کا خط ہے۔ اس کے متعلق تفصیلی بحث ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب تاریخ العرب قبل الاسلام، جلد دوم صفحہ ۳۱۳ وما بعد اور جلد ہفتم صفحہ ۳۶ تا۵۶ میں کی ہے۔ اس سلسلے میں آپ تفہیم القرآن جلد سوم، سورۂ الشعراء، حاشیہ نمبر ۹۹ مع تصاویر ملاحظہ فرمائیں تو حقیقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۱ء)